Sunday 27 March 2022

ایسا بھی نہیں درد نے وحشت نہیں کی ہے

ایسا بھی نہیں درد نے وحشت نہیں کی ہے

 اس غم کی کبھی ہم نے اشاعت نہیں کی ہے

جب وصل ہوا اس سے تو سرشار ہوئے ہیں

اور ہجر کے موسم نے رعایت نہیں کی ہے

جو تُو نے دیا اس میں اضافہ ہی ہوا ہے

اس درد کی دولت میں خیانت نہیں کی ہے

ہم نے بھی ابھی کھول کے رکھا نہیں دل کو

تُو نے بھی کبھی کھل کے وضاحت نہیں کی ہے

اس شہر بدن کے بھی عجب ہوتے ہیں منظر

لگتا ہے ابھی تم نے سیاحت نہیں کی ہے

اس عرضِ تمنا میں کسے چین ملا ہے

دل نے مگر اس خوف سے ہجرت نہیں کی ہے

یہ دل کے اجڑنے کی علامت نہ ہو کوئی

ملنے پہ گھڑی بھر کو بھی حیرت نہیں کی ہے


یشب تمنا

No comments:

Post a Comment