ایسا بھی نہیں درد نے وحشت نہیں کی ہے
اس غم کی کبھی ہم نے اشاعت نہیں کی ہے
جب وصل ہوا اس سے تو سرشار ہوئے ہیں
اور ہجر کے موسم نے رعایت نہیں کی ہے
جو تُو نے دیا اس میں اضافہ ہی ہوا ہے
اس درد کی دولت میں خیانت نہیں کی ہے
ہم نے بھی ابھی کھول کے رکھا نہیں دل کو
تُو نے بھی کبھی کھل کے وضاحت نہیں کی ہے
اس شہر بدن کے بھی عجب ہوتے ہیں منظر
لگتا ہے ابھی تم نے سیاحت نہیں کی ہے
اس عرضِ تمنا میں کسے چین ملا ہے
دل نے مگر اس خوف سے ہجرت نہیں کی ہے
یہ دل کے اجڑنے کی علامت نہ ہو کوئی
ملنے پہ گھڑی بھر کو بھی حیرت نہیں کی ہے
یشب تمنا
No comments:
Post a Comment