Friday 25 March 2022

جب بھی امید کو کھیتوں میں اگانے نکلے

 جب بھی اُمید کو کھیتوں میں اُگانے نکلے

ہم. نے دیکھا اسی مٹی سے خزانے نکلے

شہر کا شہر ہی سڑ کوں پہ اُمنڈ آیا تھا

جب بھی پُر سوز عبارت کو سُنانے نکلے

اپنی خواہش کا بھی انداز عجب ہے یارو

ہم، تو صحراؤں میں اک شہر بسانے نکلے

ہم نے ماضی کے خیالوں کو کھنگالا جب بھی

ان کے اند ر سے کئی زخم پُرانے نکلے

مُدتوں جن کے لیے کی ہے قصیدہ گوئی

ان کے لب جب بھی ہِلے دہن سے طعنے نکلے

سنگِ تُربت کا نشاں ان کے جہاں پایا. ہے

بس اسی سمت کو سر اپنا جھکانے نکلے

جن کو کھنڈرات سمجھتے رہے دُ نیا. وا لے

ان کی بنیاد سے صدیوں کے فسانے نکلے

اے وطن! اس سے بڑی اور وفا کیا ہوگی

لب سے مرتے ہوئے تیرے ہی ترانے نکلے


پرویز مانوس

No comments:

Post a Comment