گھروں کے صحن میں قبریں بنانا پڑ گئی ہیں
ہمارے بچوں کو لاشیں اٹھانا پڑ گئی ہیں
معاف کرنا وطن کی زمین، رب راکھا
ہمیں درندوں سے نسلیں بچانا پڑ گئی ہیں
چراغ بُجھنے لگے تھے سو احتیاطاً اب
تمام شہر میں آنکھیں جلانا پڑ گئی ہیں
وہ پوچھتے ہیں کہ بم کس لیے بنائے گئے
ہمیں تو بچوں سے آنکھیں چُرانا پڑ گئی ہیں
تمام حال کہاں شاعری میں آتا ہے
کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو دبانا پڑ گئی ہیں
تمہی کہو کہ تمہیں کس جگہ شمار کریں
یہاں تو یاروں کی قِسمیں بتانا پڑ گئی ہیں
وطن نے پھینک دیا ہے نِکال کر میثم
سو اپنے لوگوں کی شکلیں بھلانا پڑ گئی ہیں
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment