Friday 25 March 2022

اس نے کہا تھا چھوٹی سی فرمائش ہے

 بھیگا موسم


اس نے کہا تھا چھوٹی سی فرمائش ہے

میں نے کہا تھا بھولی بھالی خواہش ہے

اس نے کہا تھا روح میں خارش ہوتی ہے

میں نے کہا تھا جسموں کی سازش ہوتی ہے

اس نے کہا تھا بادل کالے ہوتے ہیں

میں نے کہا تھا بجلی گوری ہوتی ہے

اس نے کہا تھا جب دونوں ٹکراتے ہیں

میں نے کہا تھا پھر تو بارش ہوتی ہے

اس نے کہا تھا بارش میں چھینٹے پڑتے ہیں

میں نے کہا تھا کپڑے بھی گیلے ہوتے ہیں

اس نے کہا تھا بھیگنے والا ہے موسم

میں نے کہا بھاگ نہیں پائیں گے ہم

سارا عالم بھیگ رہا تھا بارش میں

اپنے اپنے ظرف میں، اپنی خواہش میں

شرابور تھے ہم دونوں رفتہ رفتہ

اندر باہر بھیگ گئے جستہ جستہ

جذبوں کا صابن، احساس کا پانی تھا

بارش کے دو بھیگے تن پر

دھوپ اترنے والی تھی

دھلا دھلا فطرت کا سارا منظر تھا

پر پھیلائے

دو پنچھی بے سدھ تھے

غیب کی مستی میں

سنتے ہیں

پھر آگ لگی تھی بستی میں


خورشید اکبر

No comments:

Post a Comment