Friday 25 March 2022

اس کے مقابلے میں ذرا کم بدل گئے

 اس کے مقابلے میں ذرا کم، بدل گئے

بدلا ہے پہلے یار، تو پھر ہم ،بدل گئے

پنگھٹ نہ جُھولا ہے کوئی، ٹپے نہ بانسری

شہروں کے ساتھ گاؤں بھی پیہم بدل گئے

اپنے ہی روتے عکس پہ جی بھر کے میں ہنسا

یوں قہقہوں میں آنکھ کے سب نم بدل گئے

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے یوں زیرِ لب کہا

ہوتے نہیں ہیں آپ کیوں برہم، بدل گئے

فرصت ملے تو بات کریں، بیٹھیں دو گھڑی

قصے ، کہانیوں کے تو موسم بدل گئے

اک خواب دیکھا بیٹی نے، پنجرہ بدل گیا

تعبیر یہ ملی ہے کہ محرم، بدل گئے

روئی نہ کوئی آنکھ، نہ کالا لباس ہے

احمد تِرے نصیب پہ ماتم، بدل گئے


احمد وصال

No comments:

Post a Comment