Friday 25 March 2022

ہجر کا رزق ہوئے جاتے ہیں زینت بھی زیبائی بھی

 ہجر کا رزق ہوئے جاتے ہیں زینت بھی، زیبائی بھی

خاک میں عشق ملا دیتا ہے صورت بھی، رعنائی بھی

چوٹ جگر پر کھا کے ہی اس زخم کا کچھ اندازہ ہو

پھر تجھ کو معلوم پڑے گی شدّت بھی، گہرائی بھی

حرف گری کے سر پر خواب فروشی کا الزام تو ہے

نام کے ساتھ ملا کرتی ہے شہرت بھی، رسوائی بھی

بھیڑ سے گھبرا کر دل نے اک دشت خرابا ڈھونڈا تھا

آن بسے اس ویرانے میں وحشت بھی، تنہائی بھی

دل حیران تھا آنکھیں بھر آتی تھیں ہجر قیامت پر

رفتہ رفتہ اب کچھ کم ہے حیرت بھی، بینائی بھی


ظل ہما

No comments:

Post a Comment