Friday 25 March 2022

آغاز سے انجام کی دیتا تھا خبر میں

 آغاز سے انجام کی دیتا تھا خبر میں

اب لوگ سمجھتے ہیں مِری بات مگر میں

اک بار ہی آواز لگاتا ہوں یقیناً

پھر گونج سے لگتا ہے کہیں بارِ دِگر میں

اب بیٹھے ہوئے دیکھ رہا ہوں یہ تسلسل

کچھ رنگ عناصر کے بدلنے تھے اگر میں

اک اور تناظر میں لکھا جائے گا مجھ کو

اک اور تمدن ہے اُدھر اور اِدھر میں

اوروں سے لڑائی تو مِری بنتی نہیں ہے

ہاں خود سے الجھنا ہو تو پھر ایسا نڈر میں

یوں لوگ تو کہتے ہیں کہ صابر ہے بلا کا

جوں دل پہ گزرتی ہے تو پھر کس کو خبر میں

وہ رنج میں بیٹھا ہو کہیں ہار کے دنیا

اور سوچ کے پچھتائے پھروں کاش اگر میں


مدثر عباس

No comments:

Post a Comment