Friday 25 March 2022

پھول کے ساتھ لگے خار سے اکتائے ہوئے

 پھول کے ساتھ لگے خار سے اُکتائے ہوئے 

ہم تِری بزم میں اغیار سے اکتائے ہوئے

ایک تو یہ ہمیں مرضی سے نہ چلنے دے گی 

ہم ہیں اجداد کی دستار سے اکتائے ہوئے

جی مچلتا ہے وہاں دیکھ کے ہر نادر شے  

ہم تہی جیب ہیں بازار سے اکتائے ہوئے

جب کہا؛ دوڑ ذرا، تُو تبھی لنگڑانے لگی 

زندگی ہم تِری رفتار سے اکتائے ہوئے

وہ فصاحت، وہ فسوں غیر کے لہجے میں کہاں

ہم تِرے بعد ہیں گفتار سے اکتائے ہوئے

ایک میں ہوں کہ محبت ہے لبالب مجھ میں 

اور اک تم مِرے اظہار سے اکتائے ہوئے

اک دو احباب تھے اپنے بھی گریزاں ہم سے 

ہم بھی رہنے لگے دو چار سے اکتائے ہوئے

ہم کو بے پایاں سہولت ہے طلب میں ان کی 

پر وہ رہتے ہیں طلبگار سے اکتائے ہوئے

کس ملاقات میں چُومو گے؟" ہمیشہ پوچھا"

ہم ہیں ہر بار کے "اِس بار" سے اکتائے ہوئے

تم کو دیکھیں تو حواس اپنے سنبھالیں کیسے 

عاشقِ دید بھی دیدار سے اکتائے ہوئے

خواب میں وصل کی امید سکوں دے ان کو 

ہجر زادے دمِ بیدار سے اکتائے ہوئے

منہ بناتے ہیں ستمگار لکھوں جب ان کو 

میرے پیتم مِرے اشعار سے اکتائے ہوئے

ان کو سنتا ہی نہیں کوئی سو سب گیت شفق 

تیری پازیب کی جھنکار سے اکتائے ہوئے


عائشہ شفق

No comments:

Post a Comment