چائلڈ ابیوز
کوئی نظم ایسی لکھوں میں
کہ جس میں علامت کا پردہ نہ ہو
گالیوں کی اجازت ہو
ننگی حقیقت میں ڈوبی ہوئی گالیاں
جو تمہیں دے سکوں
ایک غصے میں جلتی ہوئی نظم ایسی کہوں
جو فقط تم پڑھو
اور بس تم ہی سمجھو
جسے پڑھ کے تم کو
تمہاری غلاظت بھری سوچ سے شرم آئے
تمہیں یاد آئیں
وہ اندوہ چیخیں
کہ جو میرے حلقوم میں پھنس گئی تھیں
وہ معصوم آنسو
کہ جو میری پلکوں سے بہ کر مِرے دل میں اترے
اور اب تک تمہیں بد دعا دے رہے ہیں
خراشوں بھری وہ اذیت کی شب
جس میں تم نے
تقدس بھرے ایک معصوم رشتے کو بھنبھوڑ ڈالا
مجھے نوچ ڈالا
اگرچہ میں کافی بڑی ہو گئی ہوں
مگر وہ خراشیں
ابھی تک مری ذات میں رِس رہی ہیں
مجھے اب جو آدم پہ
اور اس کے رشتوں کی جھوٹی بناوٹ
پہ کوئی بھروسہ نہیں ہے
تو اِس کا سبب صرف تم ہو
فقط تم
ڈرو اس گھڑی سے
کہ جب میں کوئی نظم لکھوں
وہی نظم
جس میں علامت کا پردہ نہ ہو گا
وہ چھوٹی سی معصوم بچی بڑی ہو گئی ہے
اسے شاعری میں پناہ مل گئی ہے
علی زریون
No comments:
Post a Comment