Saturday 26 March 2022

کوئی نظم ایسی لکھوں میں

 چائلڈ ابیوز


کوئی نظم ایسی لکھوں میں

کہ جس میں علامت کا پردہ نہ ہو

گالیوں کی اجازت ہو

ننگی حقیقت میں ڈوبی ہوئی گالیاں

جو تمہیں دے سکوں

ایک غصے میں جلتی ہوئی نظم ایسی کہوں

جو فقط تم پڑھو

اور بس تم ہی سمجھو

جسے پڑھ کے تم کو 

تمہاری غلاظت بھری سوچ سے شرم آئے

تمہیں یاد آئیں

وہ اندوہ چیخیں

کہ جو میرے حلقوم میں پھنس گئی تھیں

وہ معصوم آنسو

کہ جو میری پلکوں سے بہ کر مِرے دل میں اترے

اور اب تک تمہیں بد دعا دے رہے ہیں

خراشوں بھری وہ اذیت کی شب

جس میں تم نے

تقدس بھرے ایک معصوم رشتے کو بھنبھوڑ ڈالا

مجھے نوچ ڈالا

اگرچہ میں کافی بڑی ہو گئی ہوں

مگر وہ خراشیں

ابھی تک مری ذات میں رِس رہی ہیں

مجھے اب جو آدم پہ 

اور اس کے رشتوں کی جھوٹی بناوٹ

پہ کوئی بھروسہ نہیں ہے

تو اِس کا سبب صرف تم ہو

فقط تم

ڈرو اس گھڑی سے

کہ جب میں کوئی نظم لکھوں

وہی نظم

جس میں علامت کا پردہ نہ ہو گا

وہ چھوٹی سی معصوم بچی بڑی ہو گئی ہے

اسے شاعری میں پناہ مل گئی ہے


علی زریون

No comments:

Post a Comment