Thursday 24 March 2022

سفر چاہتوں کا شروع کر رکھا ہے

 سفر چاہتوں کا شروع کر رکھا ہے

کھلا دل کا اس کے لیے دَر رکھا ہے

در و بام پے ہے جو پھولوں کی بارش

اسی کے لیے گھر سجا کر رکھا ہے

لبوں پہ تبسم ہے چہرے پہ لالی

نگاہوں میں رِم جھم کا منظر رکھا ہے

ہواؤں کی نرمی سے زلفوں کا اڑنا

یہ سانسوں میں اس کا شغف بھر رکھا ہے

معطر ہیں الفاظ شعر و سخن سے

غزل کا جو تحفہ نظر پر رکھا ہے

اکیلے میں باتیں یوں کرتی ہوں اس سے

خیالوں میں اس کو سجا کر رکھا ہے

یہ کس کے لیے روشنی پھر سے عظمٰی

دِیا کیوں وفا کا جلا کر رکھا ہے


عظمٰی شاہ

No comments:

Post a Comment