یوں مسافت اڑان سے نکلے
تیر جیسے کمان سے نکلے
کوئی پوچھے کہ زندگی کیا ہے
نام تیرا زبان سے نکلے
اس نے تذلیل کرکے بھیجا ہے
ہم سمجھتے ہیں شان سے نکلے
تیرے دل سے نکل گئے گویا
ہم خدا کی امان سے نکلے
جو گماں ہو یقین بن جائے
جو یقیں ہو گمان سے نکلے
جاں سے جانے کا فائدہ یہ ہوا
ہجر کے امتحان سے نکلے
وہ ہے مالک کرایہ دار نہیں
کیسے دل کے مکان سے نکلے
وحشتوں کے جہان سے عابد
ہم بڑے اطمینان سے نکلے
علی عابد
No comments:
Post a Comment