Thursday 24 March 2022

یوں مسافت اڑان سے نکلے

 یوں مسافت اڑان سے نکلے

تیر جیسے کمان سے نکلے

کوئی پوچھے کہ زندگی کیا ہے

نام تیرا زبان سے نکلے

اس نے تذلیل کرکے بھیجا ہے

ہم سمجھتے ہیں شان سے نکلے

تیرے دل سے نکل گئے گویا

ہم خدا کی امان سے نکلے

جو گماں ہو یقین بن جائے

جو یقیں ہو گمان سے نکلے

جاں سے جانے کا فائدہ یہ ہوا

ہجر کے امتحان سے نکلے

وہ ہے مالک کرایہ دار نہیں

کیسے دل کے مکان سے نکلے

وحشتوں کے جہان سے عابد

ہم بڑے اطمینان سے نکلے


علی عابد

No comments:

Post a Comment