Saturday 26 March 2022

ایک صندوق میں خط اس کے پڑے ہوتے تھے

 ایک صندوق میں خط اس کے پڑے ہوتے تھے

بشر آزاد تھا، جب فون بندھے ہوتے تھے 

اب تو ہر گاؤں میں بجلی بھی ہے یو پی ایس بھی 

آگے سب لوگ ہی پیپل کے تلے ہوتے تھے

باپ آتا ہے،۔ جگہ ڈھونڈتا ہے بیٹھنے کو

پہلے آتا تھا پسر جھٹ سے کھڑے ہوتے تھے

 صاف دامن تھے بہت میری گلی کے بچے

اس قدر صاف کہ مٹی سے اٹے ہوتے تھے

میرے ابو نے یہ بچپن میں دکھایا تھا مجھے

جن پہ پھل ہوتا تھا وہ پیڑ جھکے ہوتے تھے

اب ہے مووی کا زمانہ، بڑی سکرینیں ہیں

پہلے تھیٹر تھے یہاں، میلے لگے ہوتے تھے

میری ڈگری ہے وہاں کی کہ جہاں پر ہم لوگ

تختیاں لکھتے تھے اور ٹاٹ بچھے ہوتے تھے

میرے نانا کے وہاں کھیت تھے، گُڑ بنتا تھا 

دور ایسا تھا کہ سب کھیت ہرے ہوتے تھے

نہ یہ فلٹر، نہ فریجوں کا تماشا تھا علی

صاف پانی تھا مِرے گھر میں گھڑے ہوتے تھے


علی ارتضیٰ

No comments:

Post a Comment