Saturday 26 March 2022

خیالوں کا نگر اجڑے ہوئے منظر سے آگے ہے

 خیالوں کا نگر، اُجڑے ہوئے منظر سے آگے ہے

وہ نغمہ زار اس آواز کے بنجر سے آگے ہے

نفس اک موجِ کم آواز ہے، لیکن روانی میں

لہو کی ٹہنیوں کو کاٹتی حر حر سے آگے ہے

کبھی بے گانگی کا فاصلہ طے ہو نہیں پایا

ہمارے ساتھ کا گھر بھی ہمارے گھر سے آگے ہے

وہ خواب افروز منظر چشم و دل کی سیر گاہوں کا

ابھی آگے ہے اس اقلیمِ زور و زر سے آگے ہے

کبھی حیرت، فصیل لفظ توڑے تو خبر آئے

کہ معنی کا جہاں الفاظ کی کشور سے آگے ہے

ابھی یہ ریزہ ریزہ روشنی مٹی میں گرنے دے

نمو کا مرحلہ آنکھوں کی خاکستر سے آگے ہے


آفتاب اقبال شمیم

No comments:

Post a Comment