Saturday 26 March 2022

اشکوں میں ڈھلا پر یہ زباں تک نہیں آیا

 اشکوں میں ڈھلا پر یہ زباں تک نہیں آیا

ورنہ تو یہ طوفان کہاں تک نہیں آیا

دنیا نے بہت کچھ ہے لکھا اہلِ جنوں پر

لیکن کوئی الزام یہاں تک نہیں آیا

جب تیراعدو تیرے نشا نے پہ کھڑا تھا

اچھا ہے تِرا تیر کماں تک نہیں آیا

وہ عشق کی آتش تھی کہ جلتا رہا یہ جسم

شعلوں کا دھواں دل کے مکاں تک نہیں آیا

وہ میرے تعاقب میں تو آتا رہا برسوں

میں آج جہاں ہوں وہ وہاں تک نہیں آیا

رکھتا ہے مِرے دل کے خرابوں کو جو آباد

نام اس کا کبھی میری زبا ں تک نہیں آیا

دل میں مِرے کچھ وہم بھی آتے رہے فرحت

پر اس سے بچھڑنے کا گماں تک نہیں آیا 


فرزانہ فرحت

No comments:

Post a Comment