جو دل کی تہہ سے نکلا ہے اسے دربان چھوڑے
کوئی اس آنکھ سے کہہ دے مِرا مہمان چھوڑے
ابھی مرنے میں دن باقی ہیں سو جی چاہتا ہے
بھلے تاوان لے لے، پر اداسی جان چھوڑے
مجھے کیا آم کے باغوں کی بابت پوچھتے ہو
مجھے مدت ہوئی ہے دوستو! ملتان چھوڑے
ہمارے واسطے اتنی محبت چھوڑ جانا
پرندوں کے لیے جتنا ثمر، دہقان چھوڑے
جہاں دیکھو وہیں آفت کوئی اتری ہوئی ہے
کہاں ٹھہرے کوئی جا کر کہاں سامان چھوڑے
اب اس کی یاد سینے سے لگائے پھر رہا ہوں
جسے بچپن میں ملنے کے بڑے امکان چھوڑے
جہاں کی خاک مجھ کو نام سے پہچانتی ہے
عدیم اس شہر کو کیسے کوئی ویران چھوڑے
ندیم اجمل عدیم
No comments:
Post a Comment