Thursday 24 March 2022

جو دل کی تہہ سے نکلا ہے اسے دربان چھوڑے

 جو دل کی تہہ سے نکلا ہے اسے دربان چھوڑے

کوئی اس آنکھ سے کہہ دے مِرا مہمان چھوڑے

ابھی مرنے میں دن باقی ہیں سو جی چاہتا ہے

بھلے تاوان لے لے، پر اداسی جان چھوڑے

مجھے کیا آم کے باغوں کی بابت پوچھتے ہو

مجھے مدت ہوئی ہے دوستو! ملتان چھوڑے

ہمارے واسطے اتنی محبت چھوڑ جانا

پرندوں کے لیے جتنا ثمر، دہقان چھوڑے

جہاں دیکھو وہیں آفت کوئی اتری ہوئی ہے

کہاں ٹھہرے کوئی جا کر کہاں سامان چھوڑے

اب اس کی یاد سینے سے لگائے پھر رہا ہوں

جسے بچپن میں ملنے کے بڑے امکان چھوڑے

جہاں کی خاک مجھ کو نام سے پہچانتی ہے

عدیم اس شہر کو کیسے کوئی ویران چھوڑے


ندیم اجمل عدیم 

No comments:

Post a Comment