Thursday 24 March 2022

پیار کی بات تھی قابل غور تھی

 پیار کی بات تھی قابلِ غور تھی 

پر میں دل فلسفی سے بہت بور تھی

جا لیا ضبط کی سرحدیں پھاند کر 

خواب کی کھڑکیاں نیند کی ڈور تھی

منہ چِڑاتی تھی رخسار پر کاٹ کر 

شاعری کی پری ایسی شہ زور تھی

خواب دِکھنے لگے آنکھ لگنے لگی

مرمریں ہاتھ کی بات ہی اور تھی

الٹا قانون تھا، زاویے تھے الگ 

مور تھا مورنی، مورنی مور تھی

اس کی محکوم تھیں رنگ اور خوشبوئیں 

خوبصورت کلی گرچہ کمزور تھی 

دیو داسی پجارن اک آسیب کی 

روح سے جسم تک  جادوئی ڈور تھی

باغ کی مالکہ پھول کی آشنا

تتلیوں کی سگی حُسن کا شور تھی


حنا عنبرین

No comments:

Post a Comment