مانا کہ ابھی ربط نہ رشتہ نہ مہر ہے
پھر بھی تمہیں ہم سے ہی محبت تو مگر ہے
چھلکا مِری آنکھوں سے غمِ دیدہ کئی بار
یعنی کہ مِری اب کے اجڑنے کی خبر ہے
برسوں جو لکھوں ختم نہ ہو غم کی کہانی
قسمت میں لکھا اتنا مِرے زیرو زبر ہے
ہر بار رفو کرتی ہوں میں چاک گریباں
پھر بھی مِرے احباب کی پیوند پہ نظر ہے
ہر موڑ پہ اک درد سا رستے میں پڑا ہے
پاؤں میں تھکن دور ابھی تک مِرا گھر ہے
کمرے کے دیے سارے ہواؤں نے بجھائے
حالانکہ بہت دور ابھی وقتِ سحر ہے
اس نے مِرے رستوں میں بچھا رکھے ہیں کانٹے
کیا تم سے کہوں کیسا یہ در پیش سفر ہے
آؤ تو سہی جاناں ذرا دیر کی خاطر
گلیوں کی ہر اک چاپ کی اس دل کو خبر ہے
تارے گنے جاتی ہوں ہر اک پل شبِ ہجراں
کھڑکی سے بندھے چاند پہ بس میری نظر ہے
جو درد و الم تھے وہ سبھی تم سے کہے پر
جلتا ہے یہ دل، آگ بھڑکتی ہے جگر میں
کیوں نام بھی رعنا تمہیں اب یاد نہیں ہے
ہونٹوں پہ ہے اک آہ، نظر خاک بسر ہے
رعنا حسین چندا
No comments:
Post a Comment