دان ہی دان قدر دان سمجھ بیٹھے ہیں
میرے رونے کو وہ مسکان سمجھ بیٹھے ہیں
میرا ہونا بھی گوارا نہیں کرتے اب تو
میرے ہونے کو وہ نقصان سمجھ بیٹھے ہیں
میں نے لکھا تھا بچھڑ کر میں جیوں گا کیسے
میرے سونے کو وہ اعلان سمجھ بیٹھے ہیں
حد کہ حیرت کے تقاضوں کی صدا آئی ہے
شہر والے تجھے نادان سمجھ بیٹھے ہیں
میری تنہائی کو سمجھیں گے کہاں لوگ بھلا
میرے اپنے بھی تو نقصان سمجھ بیٹھے ہیں
یونہی مدہوشی میں دوچار کہے شعر تھے بس
مجھ کو کچھ لوگ سخن دان سمجھ بیٹھے ہیں
معاذ فرہاد
No comments:
Post a Comment