Saturday 26 March 2022

دان ہی دان قدردان سمجھ بیٹھے ہیں

 دان ہی دان قدر دان سمجھ بیٹھے ہیں

میرے رونے کو وہ مسکان سمجھ بیٹھے ہیں

میرا ہونا بھی گوارا نہیں کرتے اب تو

میرے ہونے کو وہ نقصان سمجھ بیٹھے ہیں

میں نے لکھا تھا بچھڑ کر میں جیوں گا کیسے

میرے سونے کو وہ اعلان سمجھ بیٹھے ہیں

حد کہ حیرت کے تقاضوں کی صدا آئی ہے

شہر والے تجھے نادان سمجھ بیٹھے ہیں

میری تنہائی کو سمجھیں گے کہاں لوگ بھلا

میرے اپنے بھی تو نقصان سمجھ بیٹھے ہیں

یونہی مدہوشی میں دوچار کہے شعر تھے بس

مجھ کو کچھ لوگ سخن دان سمجھ بیٹھے ہیں


معاذ فرہاد

No comments:

Post a Comment