Friday 25 March 2022

نظر میں رنگ سمائے ہوئے اسی کے ہیں

 نظر میں رنگ سمائے ہوئے اسی کے ہیں

یہ سارے پھول اگائے ہوئے اسی کے ہیں

اسی کے لطف سے بستی نہال ہے ساری

تمام پیڑ لگائے ہوئے اسی کے ہیں

اسی کے حسن کی پرچھائیاں ہیں پتوں پر

زمیں نے بوجھ اٹھائے ہوئے اسی کے ہیں

وہ جس کے قرب سے حرف وصال ہے روشن

مِرے چراغ جلائے ہوئے اسی کے ہیں

یہ بارشیں بھی اسی کی ہیں میری آنکھوں میں

یہ ابر ذہن پہ چھائے ہوئے اسی کے ہیں

یہ آگہی جو ہمیں یوں ہمارے حال کی ہے

یہ سب کمال سکھائے ہوئے اسی کے ہیں

یہ توڑ پھوڑ غزل میں اسی کے نام کی ہے

یہ سارے شور مچائے ہوئے اسی کے ہیں

ہمارے لہجے میں جو اک مٹھاس ہے باقی

ہمیں یہ زہر پلائے ہوئے اسی کے ہیں

بجز جمال ہمیں اور کیا دکھائی دے

نظر پہ پہرے بٹھائے ہوئے اسی کے ہیں

اسی جبیں سے نکلتا ہے قیس چاند مِرا

یہ آسمان سجائے ہوئے اسی کے ہیں


سعید قیس

No comments:

Post a Comment