وہ شخص جس کی حفاظتوں میں ہمارے بازو کٹے ہوئے تھے
پلٹ کے دیکھا تو اس کے ہاتھوں کو ہاتھ پھر بھی لگے ہوئے تھے
تمہارے پاؤں کا لمس پا کر ہی ان میں بڑھوتری ہوئی ہے
تمہارے آنے سے پہلے پودوں کے قد وہیں پر رکے ہوئے تھے
ہمیں تو پردیس میں یہ خواہش تھی سب کو روئیں گے نام لے کر
پلٹ کے آئے تو اپنی قبروں کے سارے کتبے مٹے ہوئے تھے
یہ پھر سے پیدا ہوا تو سوچا کہ اب کوئی مسئلہ نہیں ہے
وگرنہ اس مسئلے پہ پہلے بہت سے شکوے گلے ہوئے تھے
کسی نے ہم کو کسی کی خاطر گنوا دیا ہے تو کیا برا ہے
اسے چمک کی ضرورتیں تھیں ہمارے دن تو ڈھلے ہوئے تھے
دانش نقوی
No comments:
Post a Comment