تنہائی
تمہیں کیا معلوم کہ میرے کمرے کو چاروں کونوں سے
کس طرح تنہائی کی دیمک چاٹ چکی ہے
رات کے بارہ بجے بستر سے رضائی اٹھاتا ہوں
تو اداسی کے ذرے ایسے اچھلتے ہیں
جیسے صبح کی کِرنیں ہوں
بعض اوقات تو پیچھے لگا پردہ
اتنا ڈرا دیتا ہے کہ اس کی پرچھائی بھی
تمہاری زلفوں کا سایا لگنے لگتی ہے
تمہیں کیا معلوم میرا کمرے میں
کن درویشوں سے پالا پڑتا ہے
جو سچ کہوں تو مجھے چھت پہ لگے بلب کی روشنی بھی
کوہِ طور پر جنم لی گئی تجلی سے کم نہیں لگتی
یہ تو ایسے ہے جیسے موسیٰ پر خدا کی تجلی پڑ رہی ہو
اور سامنے کوئی سیاہ رُو آ جائے
تم جیسی نور کی دیوی کیا جانے
کہ اندھیروں کا اجالا کسے کہتے ہیں
وہ لڑکی جسے بالیاں تک نہیں پہننی آتیں
میری اداسی کو کیا پہنے گی
میں تم سے کیا کہوں کہ میرے کمرے میں
پڑی چیزیں کیسے ٹوٹنے لگتیں ہیں
کہ تم تو اتنی نازک ہو کہ
بالوں میں لگا کلپ بھی ٹوٹ جائے تو رو پڑتی ہو
مگر میں اب بھی اس حبس میں اس لیے زندہ ہوں
کہ مجھے جیتے جی مرنے کا فن آتا ہے
ویسے میں نے موت کو کبھی غم کی نجات مانا تو نہیں
لیکن مجھے جیتے جی اپنی قبر دِکھ جاتی تو
نشاندہی کا موقع ضرور تھا
اب آ بھی جاؤ کہ
شاعری کی چند کتابوں کو پڑھ کر
میرا دل پرِ جبریلؑ سے بھی تیز دھڑک رہا ہے
خیر مجھے اپنی تنہائی کا وقتِ مرگ کوئی رنج تو نہیں ہے
مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ
جب تم سج سنور کر
مجھے اپنے کمرے میں مرتا ہوا دیکھو گی
تو ٹیبل پر پڑے دیوانِ داغ کے پنے پلٹتی رہ جاؤ گی
حمزہ عمران
No comments:
Post a Comment