Friday 25 March 2022

تنہائی کی دیمک چاٹ چکی ہے

 تنہائی


تمہیں کیا معلوم کہ میرے کمرے کو چاروں کونوں سے 

کس طرح تنہائی کی دیمک چاٹ چکی ہے

رات کے بارہ بجے بستر سے رضائی اٹھاتا ہوں 

تو اداسی کے ذرے ایسے اچھلتے ہیں 

جیسے صبح کی کِرنیں ہوں

بعض اوقات تو پیچھے لگا پردہ 

اتنا ڈرا دیتا ہے کہ اس کی پرچھائی بھی 

تمہاری زلفوں کا سایا لگنے لگتی ہے

تمہیں کیا معلوم میرا کمرے میں 

کن درویشوں سے پالا پڑتا ہے

جو سچ کہوں تو مجھے چھت پہ لگے بلب کی روشنی بھی 

کوہِ طور پر جنم لی گئی تجلی سے کم نہیں لگتی

یہ تو ایسے ہے جیسے موسیٰ پر خدا کی تجلی پڑ رہی ہو 

اور سامنے کوئی سیاہ رُو آ جائے

تم جیسی نور کی دیوی کیا جانے 

کہ اندھیروں کا اجالا کسے کہتے ہیں

وہ لڑکی جسے بالیاں تک نہیں پہننی آتیں 

میری اداسی کو کیا پہنے گی

میں تم سے کیا کہوں کہ میرے کمرے میں 

پڑی چیزیں کیسے ٹوٹنے لگتیں ہیں

کہ تم تو اتنی نازک ہو کہ 

بالوں میں لگا کلپ بھی ٹوٹ جائے تو رو پڑتی ہو

مگر میں اب بھی اس حبس میں اس لیے زندہ ہوں 

کہ مجھے جیتے جی مرنے کا فن آتا ہے

ویسے میں نے موت کو کبھی غم کی نجات مانا تو نہیں 

لیکن مجھے جیتے جی اپنی قبر دِکھ جاتی تو 

نشاندہی کا موقع ضرور تھا

اب آ بھی جاؤ کہ 

شاعری کی چند کتابوں کو پڑھ کر 

میرا دل پرِ جبریلؑ سے بھی تیز دھڑک رہا ہے

خیر مجھے اپنی تنہائی کا وقتِ مرگ کوئی رنج تو نہیں ہے 

مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ 

جب تم سج سنور کر 

مجھے اپنے کمرے میں مرتا ہوا دیکھو گی 

تو ٹیبل پر پڑے دیوانِ داغ کے پنے پلٹتی رہ جاؤ گی 


حمزہ عمران

No comments:

Post a Comment