Saturday 26 March 2022

مسلط ہوئے ہیں عدوئے وطن ستم ہے رواں

 مسلط ہوئے ہیں عدوئے وطن ستم ہے رواں

مٹے ہیں گل و لالہ و یاسمن مسلسل زیاں

کوئی چھاؤں والا شجر اب نہیں تپی ہے زمیں

ہے ماحول سنگیں فضا آتشیں دھواں ہی دھواں

بچا ہے نہ پتہ نہ پودا کوئی نہ سبزہ کوئی

نہیں باغ میں آج بُوٹا کوئی خزاں ہی خزاں

کبھی تھا حسیں منظرِ رنگ و بُو یہاں کو بکو

مگر آج ہے ہر طرف ہاؤ ہو ہیں سب نوحہ خواں

کبھی تھے مقدر میں جام و سبو ایاغ و کدو

لہو ہی لہو آج ہے چار سُو وہ دور اب کہاں

رعایا پہ کرتے ہیں ظلم و ستم خدا کی قسم

شب و روز بھرتے ہیں اپنے شکم سبھی حکمراں

حکومت ہے بس لُوٹنے میں مگن غبن پر غبن

اُسے کیا جئیں یا مریں مرد و زن سماں ہے گراں

الٰہی قرارِ دروں ہم کو دے سکوں ہم کو دے

خرد چھین لے اب جنوں ہم کو دے کہ پائیں اماں

کوئی آ کے اب ہاتھ میں ہاتھ دے ہمیں تھام لے

نکالے ہمیں رنج و آلام سے کوئی مہرباں

خطرناک رستے کٹھن مرحلے مٹے ولولے

بدن میں تھکن پاؤں میں آبلے لبوں پر فغاں

حکومت نے جو جو کیے ہیں ستم دئیے ہیں جو غم

بلا خوف کرتا رہوں گا رقم ہوں میں حق بیاں

خدایا ہمیں راشیوں سے بچا بُروں کو ہٹا

ہمارا شیاطیں سے پیچھا چھڑا کرم کر یہاں

نہ ہمدم نہ ساجن نہ ساتھی کوئی نہ حامی کوئی

نہ ہمرہ نہ ہم سر نہ راہی کوئی لُٹا کارواں

نہ جانے کب آ جائے رہبر کوئی قلندر کوئی

دلاور کوئی بندہ پرور کوئی جو بدلے سماں

لکھی ہے یہ ناصر نے عمدہ غزل بڑی بر محل

نہ سکتہ ہے اس میں نہ کوئی خلل رواں بر زباں


فیض الحسن ناصر

No comments:

Post a Comment