Sunday 27 March 2022

دشت سے لوٹ کے جانا بھی نہیں آتا ہے

 دشت سے لوٹ کے جانا بھی نہیں آتا ہے

اور مجھے خاک اُڑانا بھی نہیں آتا ہے

تیرے کیا خواب چُراؤں گا کہ مجھ ایسوں کو

باغ سے پھول چُرانا بھی نہیں آتا ہے

کچھ نہ کچھ چھوڑ کے جاتے ہو ہمیشہ مجھ میں

تم کو تو ٹھیک سے جانا بھی نہیں آتا ہے

عشق ہے مجھ کو زمیندار کی لڑکی سے جسے

جسم پر گھاؤ اگانا بھی نہیں آتا ہے

بھول جاتا ہوں کہ وہ بھی ہے مِری دنیا میں

اور اسے یاد دلانا بھی نہیں آتا ہے

میں نے پھر اس سے کیا ہے وہی وعدہ تابش

وہی وعدہ جو نبھانا بھی نہیں آتا ہے


توصیف تابش

No comments:

Post a Comment