محبت آخری رشتہ ہے
محبت آخری جذبہ
جو ہم میں اور تم میں ہے
کسی بھی قید سے ہٹ کر
حدودِ وقت سے آگے
نہ اس کو نام سے مطلب
نہ اس کو لمس کی خواہش
نہ رنگ و بو کے پیرائے میں لَو دیتا
نہ رہ ہموار کرتا داستانوں کی
حکایت خیز راتوں سے گزرتا خواب ہوتا
آخری جذبہ
کسی وعدے کی سانسیں لے رہا ہے
اک یقیں کے ساتھ رہتا ہے
وہ وعدہ جس کا اب نام و نشاں تک مٹ چکا ہو گا
یقیں جو روزِ اول سے یونہی اندھا ہے
بے حس ہے
محبت آخری رشتہ
جو ہم میں اور تم میں ہے
کسی شامِ نگارستان کے پھیکے تبسم سا
چھچھلتی بارشوں کے فرض کردہ جلترنگ ایسا
کسی الجھن سے پیوستہ
زمانی ضابطوں میں گھاؤ گنتا زخم سہلاتا
کسی رنجش کی بے گل شاخ سے
الجھی ہوئی دھجی کی صورت
تند صحرائی ہواؤں کی اماں میں شوکتا
بنتا بگڑتا ٹوٹتا ڈھلتا
محبت آخری جذبہ جو ہم میں اور تم میں ہے
خمار میرزادہ
No comments:
Post a Comment