Friday 1 November 2024

کب ہے منظور کہ یوں جنس دل زار بکے

 کب ہے منظور کہ یوں جنس دل زار بکے

پر یہ وہ شے ہے نہ بیچوں بھی تو سو بار بکے

لوح مرتد پہ یہ محمود کے لکھ دینا تھا

حسن وہ شے ہے کہ لیتے ہی خریدار بکے

 سو ہی جاوے مِرے طالع کے برابر آ کر

کیا ہو گر بخت عدو بھی سر بازار بکے

یہ شہر ہے یا کوئی سانپوں کا جزیرا ہے

 یہ شہر ہے یا کوئی سانپوں کا جزیرا ہے

ہر کوئی گلے مل کر جذبات کو ڈستا ہے

انسان حقیقت میں اور اس کے سوا کیا ہے؟

مہکی ہوئی مِٹی کا معصوم سا سپنا ہے

سب دیکھتے رہتے ہیں آئینے میں چہرے کو

میں نے مِرے چہرے میں آئینے کو دیکھا ہے