کب ہے منظور کہ یوں جنس دل زار بکے
پر یہ وہ شے ہے نہ بیچوں بھی تو سو بار بکے
لوح مرتد پہ یہ محمود کے لکھ دینا تھا
حسن وہ شے ہے کہ لیتے ہی خریدار بکے
سو ہی جاوے مِرے طالع کے برابر آ کر
کیا ہو گر بخت عدو بھی سر بازار بکے
کب ہے منظور کہ یوں جنس دل زار بکے
پر یہ وہ شے ہے نہ بیچوں بھی تو سو بار بکے
لوح مرتد پہ یہ محمود کے لکھ دینا تھا
حسن وہ شے ہے کہ لیتے ہی خریدار بکے
سو ہی جاوے مِرے طالع کے برابر آ کر
کیا ہو گر بخت عدو بھی سر بازار بکے
یہ شہر ہے یا کوئی سانپوں کا جزیرا ہے
ہر کوئی گلے مل کر جذبات کو ڈستا ہے
انسان حقیقت میں اور اس کے سوا کیا ہے؟
مہکی ہوئی مِٹی کا معصوم سا سپنا ہے
سب دیکھتے رہتے ہیں آئینے میں چہرے کو
میں نے مِرے چہرے میں آئینے کو دیکھا ہے