ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
شام کا وقت ہے دریچے میں
جھانکتا ہے غروبِ مہر کا عکس
ناامیدی کی رات لمبی ہے
محمد امین
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
شام کا وقت ہے دریچے میں
جھانکتا ہے غروبِ مہر کا عکس
ناامیدی کی رات لمبی ہے
محمد امین
آئینے
یہ آئینے ہیں
اپنے ظرف کی مانند ہی تو عکس دیتے ہیں
محدب آئینے اک راکشس کا روپ دینے میں
معقر آئینے بونا بنا دیتے ہیں مجھ کو
سادہ آئینے بے چارے خود حیران ہیں
بھلا وہ کیا بتا سکتے ہیں کیا ہوں
تمہارے طنز کا ہر ایک تیر زندہ ہے
کہ کھا کے زخم دل بے ضمیر زندہ ہے
مجھے خریدنے والا یہ کہہ کے لوٹ گیا
عجیب شخص ہے اب تک ضمیر زندہ ہے
سنائی دیتی ہے زنجیر کی صدا اکثر
ہماری ذات میں شاید اسیر زندہ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کی آپؐ نے ہی خاک کی پہچان مکمل
ورنہ کہاں انسان تھا انسان مکمل
وہ چہرہ کوئی خواب کا چہرہ تو نہیں تھا
جس رُوپ کو پا کر ہُوا قرآن مکمل
وہ نام جو محتاجِ تعارف نہ کبھی تھا
وہ جس کے حوالے سے ہو ایمان مکمل
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زباں ساتھ دے تو کہوں میرے آقاؐ
ہو درمان سوز دروں میرے آقاؐ
سفر ہے مدینے کا اور سوچتی ہوں
کہ کیا زاد راہ ساتھ لوں میرے آقاؐ
تڑپ لے کے دل.میں اور آنکھوں میں آنسو
میں چلتی رہوں سر نگوں میرے آقاؐ
بدلی بدلی تری نظر کیوں ہے
تُو خفا مجھ سے اس قدر کیوں ہے
گفتگو میں اگر مگر کیوں ہے؟
بات کہنے میں تجھ کو ڈر کیوں ہے
دل کے زخموں کو چاک کرنے میں
یہ پس و پیش چارہ گر کیوں ہے
براڈ کاسٹر
آپ اگر ارشاد کریں
پم آپ کے چھوٹے قد کو
شاہی مسجد کا مینار بنا دیں
آپ کے دشمن، جن کی ہیبت
آپ کی نس نس پر طاری ہے
جن کی ایک جھلک، اک سایہ
بے حسی اک عذاب ہوتا ہے
خدمتِ خلق ثواب ہوتا ہے
عشق کی جنگ میں بھلا یارو
کب کوئی فتح یاب ہوتا ہے؟
ہو بے شک پر شکستہ، چڑیوں سے
پھر بھی بر تر عقاب ہوتا ہے
ابن قابیل کی دعا
اے ارض و سما کے خالق
بے عیب و دانا رحیم و مالک
نہ جانے کتنی ہے مخلوق تیری
حساب کیسے تو رکھتا ہوگا
کہیں پہ انساں کہیں پہ شیطاں
فرشتے جن اور طیور و حیواں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل کیا متاع زیست کو جالی پہ رکھ دیا
اپنا نصیب ہی درِ عالیﷺ پہ رکھ دیا
سر کو جُھکا کے سر درِ عالی پہ رکھ دیا
ہر فیصلہ مدینے کے والی پہ رکھ دیا
دستِ دُعا سے قبل ہی بابِ اثر کُھلا
جو مُدعا تھا، چشمِ سوالی پہ رکھ دیا
میری آنکھوں میں کیوں نمی سی ہے
کیا زمانے میں کچھ کمی سی ہے
شہرِ دل میں تو بس اندھیرے ہیں
لاکھ دُنیا میں روشنی سی ہے
ہم نفس سب کہاں گئے لوگو
اب یہ دُنیا تو اجنبی سی ہے
چُپی
تمہارے ہونٹوں پر
چُپیاں کِھل آئی ہیں
جنگلی پھُولوں کی طرح
اور میں تمہارے ہونٹوں کو نہیں
نہ جنگلی پھُولوں کو دیکھنا چاہتا ہوں
میں چاہتا ہوں
محبت کی نشانی کو کُچل کر
وہ خوش ہیں اک کہانی کو کچل کر
یہ دہشت کی جو آندھی چل رہی ہے
رُکے گی زندگانی کو کچل کر
کریں گے شُدھ گنگا کو لہو سے
سبھی آنکھوں کے پانی کو کُچل کر
جبینِ تشنہ لبی پر اگر نہ بل آتا
تو جانے دستِ ہوس کتنے جام چھلکاتا
سکوتِ آخرِ شب اور کربِ تنہائی
تِرے خیال سے اے کاش دل بہل جاتا
یہ سچ ہے کچھ نہ مِلا تیری یاد سے اے دوست
تجھے بھلاتا تو اپنی وفا پہ حرف آتا
فتنہ پردازی عدو کا نام ہے
نام رہبر کا یونہی بدنام ہے
رنج و غم میں بھی ہمیں بخشا سکوں
زندگی بر دوشِ مے کا جام ہے
پینے والوں کو سلیقہ ہی نہیں
مے کدہ تو مفت میں بدنام ہے
وحشت کو ثنا چھپائے رکھنا
دستار و قبا سجائے رکھنا
دیوانے ہی تیرے جانتے ہیں
صحراؤں کو بھی بسائے رکھنا
آنکھوں کے ستارے، رُوپ کا چاند
یہ سارے دِیے جلائے رکھنا
طبیب ہو کے بھی دل کی دوا نہیں کرتے
ہم اپنے زخموں سے کوئی دغا نہیں کرتے
پرندے اُڑنے لگے ہیں غرور کے تیرے
ہوا میں کاغذی پر سے اُڑا نہیں کرتے
نکیل ڈالنی ہے نفس کے ارادوں پر
بِنا لگام کے گھوڑے تھما نہیں کرتے
نہ جانے دل کو یہ کیسا ہراس رہتا ہے
کوئی تو ہے جو مِرے آس پاس رہتا ہے
سمجھ میں آ نہ سکے، ذہن پر محیط رہے
وہ کون ہے؟ جو قرینِ قیاس رہتا ہے
یہ کیسے درد کی لذت ہے شاملِ احساس
عجیب کیف سے دل روشناس رہتا ہے
ایک تو پتھر اُچھالا جا رہا ہے
اس پہ شیشہ بھی سنبھالا جا رہا ہے
گھر اندھیروں کا کھنگالا جا رہا ہے
رات میں سُورج نکالا جا رہا ہے
پھُول تو مجبوریوں میں کِھل رہے ہیں
باغ میں کانٹوں کو پالا جا رہا ہے
وہ زندگی جو شب انتظار گزری تھی
تِرے کرم سے بہت خوشگوار گزری تھی
غضب کہ آج وہی دل ہے غم کش دنیا
نگاہ ناز بھی کل جس پہ بار گزری تھی
سکوں نصیب وہی اب ہیں جن کی عمر کبھی
حریف گردش لیل و نہار گزری تھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ماورائے سرحد ادراک ہے تیراﷺ خیال
یہ ہمیں تسلیم پھر بھی ہم ہیں مشتاقِ جمال
کیا بیاں کر پائے گی وہ حیرتوں کے درمیاں
وسعتِ دشتِ تمنا اور اک چشمِ غزال
بے یقینی حد سے بڑھتی جا رہی ہے کیا کہیں
یاں گُلِ اُمید پر مُردہ ہے،۔ سبزہ پائمال
جو دُکھی کو دُکھی سمجھتے ہیں
ہم انہیں آدمی سمجھتے ہیں
حق کو تسلیم کر کے ساتھ نہ دے
ہم اسے بُز دلی سمجھتے ہیں
پیار اخلاص کو محبت کو
لوگ سوداگری سمجھتے ہیں
بساطِ عالمِ ہستی میں نام پیدا کر
تو اس مقال میں عالی مقام پیدا کر
پلا سکے جو شرابِ اخوتِ اسلام
شراب خانے میں ساقی وہ جام پیدا کر
جلا کے شمع حقیقت تمام عالم میں
مذاقِ عشق ہر اک خاص و عام پیدا کر
شبدوں کا گل مہر
کال نے
لکھ دیا مجھے
شبدوں کے مانند
میرے یُگ کے چہرے پر
چاہتا ہوں فقط
شبدوں کا سلگتا گل مہر
احباب کو مائل بہ جفا دیکھ رہے ہیں
کیا دیکھنے ہم آئے تھے کیا دیکھ رہے ہیں
اللہ رے معصومیٔ اربابِ تمنا دیکھ رہے ہیں
پتھر کے خداؤں میں وفا دیکھ رہے ہیں
بیگانہ روی تم پہ ہی موقوف نہیں ہے
ہم جسم سے سائے کو جدا دیکھ رہے ہیں
غموں کی حکمرانی ہو گئی ہے
خدا کی مہربانی ہو گئی ہے
لگا دو مرقدِ غالب پہ کتبہ
غزل کافی پرانی ہو گئی ہے
تمہاری یاد کا شاید گزر ہو
فضا کچھ زعفرانی ہو گئی ہے
چہرے
قریہ قریہ بستی بستی
گھوم کے میں یہ ڈھونڈ رہا تھا
کوئی ایسا بھی تو ہو گا
جس کا چہرہ اپنا ہو گا
لیکن چہروں کے جنگل میں
ہر چہرہ اک دھوکا پایا
میں کافر ہوں مجھے انکار کب ہے
خدا سے پر مِری تکرار کب ہے
میں اپنی ذات میں تنہا بہت ہوں
مِرے دل میں تِرا سنسار کب ہے
جنونِ عشق ہے بس دل کے اندر
تماشہ یہ سرِ بازار کب ہے
قضا نوید سکون دوام ہے ساقی
حیات زہر ہلاہل کا نام ہے ساقی
جو مے کدے کا یہی اہتمام ہے ساقی
تو دور ہی سے ہمارا سلام ہے ساقی
میں جام چھین بھی سکتا ہوں تیرے ہاتھوں سے
مگر یہ صرف تِرا احترام ہے ساقی
غم کی آغوش میں پلی ہے ابھی
الجھی الجھی سی زندگی ہے ابھی
جام پر جام پی رہا ہوں، مگر
میرے ہونٹوں کو تشنگی ہے ابھی
زندگی میرے حق میں تیرے بعد
لمحہ لمحہ صدی صدی ہے ابھی
کہیں شبخوں کا اندیشہ نہیں ہے
یہ آغاز سفر اچھا نہیں ہے
طلسمِ خامشی ٹُوٹا نہیں ہے
مگر مقتل سا سناٹا نہیں ہے
خزاں کے لوٹ جانے کا ہے خدشہ
چمن دل کا ابھی اُجڑا نہیں ہے
تا عمر دائروں میں گھمایا گیا مجھے
یوں زندگی کا کھیل کھلایا گیا مجھے
سب لوگ اپنی اپنی غرض کے اسیر تھے
آیا نہ راس کوئی بھی آیا گیا مجھے
خوابوں کے چند خام سے سکے اچھا کر
سانسوں کی ڈوریوں پہ نچایا گیا مجھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جان انبیاء تم ہو، شان کبریا تم ہو
ابتداء بھی تم سے تھی اور انتہا تم ہو
بزمِ عالمِ امکاں ہو کہ لا مکاں دونوں
محفلیں تمہاری ہیں، ان میں رُونما تم ہو
رہ روِ رہِ اسرا اور مقامِ او ادنیٰ
نطق گنگ ہے آقاؐ کیا کہیں کہ کیا تم ہو
کوئی بھی ارمان نہیں ہے
یوں جینا آسان نہیں ہے
آہیں اندر گھٹ جاتی ہیں
دل میں روشندان نہیں ہیں
چھوڑو بھی اب ان قصوں کو
ان قصوں میں جان نہیں ہے
بر سر روزگار تھے پہلے
ہم بھی یاروں کے یار تھے پہلے
آج یہ زیست ہم پہ بار سہی
زیست پر ہم بھی بار تھے پہلے
آج ہم وقت کو پکارتے ہیں
وقت کی ہم پکار تھے پہلے
بتوں سے ہم نے جا کے التجا کی
بغاوت یہ خدا سے بر ملا کی
فنا جب ہو چکی کشتی ہماری
تو پھر آواز آئی نا خدا کی
جھکا دی یہ جبیں ہر نقشِ پا پر
الہیٰ خیر میرے دست و پا کی
یہ کیا وسوسے ہمسفر ہو گئے ہیں
سبھی راستے پُر خطر ہو گئے ہیں
پُکارا نہیں تم کو غیرت نے ورنہ
کئی بار آ کر ادھر ہو گئے ہیں
نہ سمجھو ہمیں کچھ شکایت نہیں ہے
کہ خاموش کچھ سوچ کر ہو گئے ہیں
کتنے جواب ڈھونڈ کے لائیں جہان میں
ہر روز اک سوال نیا امتحان میں 🔅
کیسے بساتا دل میں مکیں اپنے میں نئے
آسیب ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے مکان میں
تازہ لہو کے چھینٹے زمیں پر ہیں دور تک
زخمی پرندہ کوئی تھا شاید اڑان میں
ہر گھڑی شہر خموشاں کا سماں رہتا ہے
دل کی بستی میں شب و روز دھواں رہتا ہے
میری بدلی ہوئی حالت کا بھی مفہوم سمجھ
ان دنوں مجھ سے خفا دشمنِ جاں رہتا ہے
آئینہ توڑ کے کیوں جوڑ رہے ہیں صاحب
زخم بھر جاتا ہے پر اس کا نشاں رہتا ہے
آہ و گریہ میں کہاں تاثیر ہے
ضبط میں ہی اشکوں کی توقیر ہے
ہو گئے یکساں اداسی اور میں
ایک صورت ایک سی تصویر ہے
جو مری سانسوں کی سیلن سوکھ لے
کیا کوئی شے اتنی بھی نم گیر ہے
محبت کا تجھے عرفان بھی ہے
محبت کُفر بھی ایمان بھی ہے
تضادِ حضرتِ انساں نہ پوچھو
فرشتہ بھی ہے یہ شیطان بھی ہے
یہی ثابت ہوا ہے زندگی سے
جو دانا ہے وہی نادان بھی ہے
ڈر کیوں جاتے ہیں یہ ڈرنے والے لوگ
مرنے سے پہلے ہی مرنے والے لوگ
عمر کے کتنے پیارے سال بچاتے ہیں
پیار محبت عشق نہ کرنے والے لوگ
لوگ وہ کتنی چین کی نیندیں سوتے ہیں
وعدہ کر کے جلد مکرنے والے لوگ
آنکھیں انگلیاں اور دل
راکھ ہی راکھ ہے اس ڈھیر میں کیا رکھا ہے
کھوکھلی آنکھیں جہاں بہتا رہا آب حیات
کب سے اک غار کی مانند پڑی ہیں ویراں
قبر میں سانپ کا بل جھانک رہا ہو جیسے
راکھ ہی راکھ ہے
ہرے درختوں سے، تازہ فضا سے ہٹ کر بھی
کچھ اور ہے یہاں آب و ہوا سے ہٹ کر بھی
یہ عشق ہے، کوئی معمولی جرم تھوڑی ہے
ازالہ کرنا پڑے گا، سزا سے ہٹ کر بھی
خدا کے ہونے نہ ہونے کی بحث ایک طرف
کوئی امید نہیں ہے، خدا سے ہٹ کر بھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ایمان ہے وابستہ اقرار محمدﷺ سے
کونین منور ہیں انوارِ محمدﷺ سے
دنیا کے حوادث سے ہونے کا نہیں کچھ بھی
جب تک رہے ربط اپنا دربار محمدﷺ سے
اسرا کلامِ حق ظاہر ہوئے دنیا پر
کردارِ محمدﷺ سے گفتارِ محمدﷺ سے
سڑے دماغوں کے دانشوروں کا کیا ہو گا
جو پاؤں چھوڑ دیں چلنا، سروں کا کیا ہو گا
میں اُڑ رہا تھا فضا کی دسوں دِشاؤں میں
کبھی یہ سوچا نہیں تھا، پروں کا کیا ہو گا
خِرد کی دوڑ میں بازی تو مار لی، لیکن
دلوں کے کھیل میں کمپیوٹروں کا کیا ہو گا
بے تابی
کبھی کبھی اکثر
تمہاری یاد کا پہلو
بڑا بے چین کرتا ہے
سکوں مجھ کو نہیں آتا
تمہاری یاد آتی ہے
ذرا رنجور کرتی ہے
نادانیوں کو ایک نیا رنگ دے دیا
دانستہ میں نے ہاتھ تہ سنگ دے دیا
میرا خیال تھا یہ کوئی نیک کام ہے
میں نے تمہارے درد کو آہنگ دے دیا
دنیا میں اور مجھ میں پھر اک بار ٹھن گئی
فطرت نے میرے ہاتھ میں پھر چنگ دے دیا
تاراج خواہشوں کا مداوا نہ ہو سکا
کوئی ہمارے واسطے عیسیٰ نہ ہو سکا
اتنی شدید دھوپ تھی مجھ پہ کہ عمر بھر
ابر و درخت سے کبھی سایہ نہ ہو سکا
نیندوں میں چھوڑ کر ہمیں آگے نکل گیا
ہم سے اس ایک خواب کا پیچھا نہ ہو سکا
چہرے پر اک چہرہ لگانا سیکھ لیا
آخر ہم نے طور زمانا سیکھ لیا
کب تک تجھ کو زحمت ہو کترانے کی
ہم نے بھی اب آنکھ چرانا سیکھ لیا
ہائے تم تو دل سے ملنے والے تھے
تم نے کب سے ہاتھ ملانا سیکھ لیا
غمِ وفا کو پس پشت ڈالنا ہو گا
کھٹک رہا ہے جو کانٹا نکالنا ہو گا
فقیرِ عشق ہوں کچھ دے کے ٹالنا ہو گا
بس اک نگاہ کا سِکہ اچھالنا ہو گا
سوال دوستو! عظمت کا ہے سروں کا نہیں
ہمیں وقار کا پرچم سنبھالنا ہو گا
آپ کی تصویر دل کا آئینہ ہے
آئینہ کا آئینہ سے سامنا ہے
جب ندی سانسوں کی ہر پل بہہ رہی
پھر پلوں کو ہاتھ میں کیوں تھامنا ہے
کیش٭ کھولے کیکئی پھر سے کھڑی ہے
نیائے٭٭ کے بن باس کی ٭٭٭سنبھاونا ہے
یہ مرض عشق کا بنا کیوں ہے
درد ہی درد کی دوا کیوں ہے
اس کا ملنا اگر ہے نا ممکن
اس سے ہی عشق پھر ہوا کیوں ہے
پل دو پل ہی اسے نہارا تھا
عمر بھر کی مِری سزا کیوں ہے
خستہ دیوار کا سہارا تھا
وقت زنداں میں جب گزارا تھا
جس نے بیکار کر دیا ہے مجھے
کیا کہا؟ عشق وہ تمہارا تھا
میری آنکھوں کو آئینہ کر کے
اس نے اپنا بدن اتارا تھا
روح کی تسکین چاہی رفعتوں کی چاہ کی
تجھ سے جو کر دے قریب ان زاویوں کی چاہ کی
ہر کوئی محتاجِِ توفیقِ محبت ہے یہاں
تُو نے جب چاہا تو ہم نے نیکیوں کی چاہ کی
سیدھ میں چلتے رہے اور تیرے در تک آ گئے
کم نظر کی کج روی نے راستوں کی چاہ کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو آیا گنبد خضریٰ نظر مدینے میں
تو جھک گیا پئے تعظیمِ سر مدینے میں
مجھے تو ان کے مقدر پہ رشک آتا ہے
گزارتے ہیں جو شام و سحر مدینے میں
تمام عمر مِری ہند میں تمام ہوئی
گیا نہ لے کے مجھے راہبر مدینے میں
گداز قلب و نظر ذہن انقلابی دے
قدم قدم تجھے اللہ کامیابی دے
ڈھکا ہوا ہوں میں تہذیب کے لبادے میں
مِرے خدا! مجھے اب عزمِ بے نقابی دے
تمام عمر کٹی ہے سُلگتے صحرا میں
میرے رفیق! اب اک رات تو گلابی دے
بہادری ہے کہ یہ بُز دلی نہیں کرتا
میں چاہتے ہوئے بھی خُود کشی نہیں کرتا
وہ ہنس کے ملتا تو، سینے سے نہیں لگتا
چراغ جلتا تو ہے،۔ روشنی نہیں کرتا
خُدائے قہر و غضب! اس پہ جتنی آفتیں بھیج
یہ شخص پھر بھی تِری بندگی نہیں کرتا
بُرا وقت آتا ہے جب دوستو
تو کترا کے چلتے ہیں سب دوستو
کہاں لا کے مارا ہے تقدیر نے
خلوص و وفا کے سبب دوستو
کسی سے بچھڑ کے خدا جانے کیوں
نہ دن سُکھ سے گُزرا نہ شب دوستو
دریدہ دیکھ کر کپڑے ہمارے
اُداسی نے لیے بوسے ہمارے
ہمارا دل نہیں بس سر جُھکا تھا
ہُمکتے رہ گئے سجدے ہمارے
پھر اک برپا ہوئی صحرا میں مجلس
تبرّک میں بٹے کُرتے ہمارے
بادۂ عشق کا ہے جام غزل
حسن کو دوسرا ہے نام غزل
دل کی آواز کا ہے نام غزل
ہے محبت بھرا پیام غزل
اہل دل کے لبوں پہ رہتی ہے
تجھ کو حاصل ہے وہ مقام غزل
کام بس نام کا نہیں ہوتا
نام کچھ کام کا نہیں ہوتا
آج کی شام کا جو عالم ہے
ہر کسی شام کا نہیں ہوتا
چین حد سے بڑھا تو یارو پھر
چین آرام کا نہیں ہوتا
یہ باغ مِرے سامنے ویران ہُوا ہے
ہر کام یہاں جھوٹ سے آسان ہوا ہے
کچھ اہل چمن ہی مِرے دکھ درد کو سمجھے
یہ باغ مِرے سامنے ویران ہوا ہے
جب سے صنم آیا ہے خدا اور مِرے بیچ
اس بندۂ ناچیز کا نقصان ہوا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ جو کچھ دولت اسرار وحدت مل گئی سب کو
مِرے آقا محمدﷺ کی بدولت مل گئی سب کو
مِرے سرکارؐ کے آنے سے راحت مل گئی سب کو
مکمل ہو گیا قرآں،۔ ہدایت مل گئی سب کو
یقیناً فضل رب ہی ہے کہ عظمت مل گئی سب کو
مِرے آقا محمدﷺ سے جو نسبت مل گئی سب کو
زہر سے زہر کٹے کانٹے سے کرچی نکلے
دے نیا درد کہ یہ ٹیس پرانی نکلے
زندگی یوں تو نیا لفظ نہیں ہے، لیکن
وقت کے ساتھ نئے اس کے معانی نکلے
کیوں کوئی کوکھ جو سُونی ہو وہ شرمندہ ہو
کیا ضروری ہے کہ ہر سیپ سے موتی نکلے
یہ نتیجے تھے دل لگانے کے
اشک بہتے رہے دِیوانے کے
کون سے درد تم کو دِکھلاؤں
کچھ تمہارے ہیں کچھ زمانے کے
لے نشانہ وہ جو تو کیا ہو گا
ہم ہیں گھائل بِنا نشانے کے
شیشۂ دل شکستہ تر رکھیے
اپنے حالات پر نظر رکھیے
قتلِ گُل ہو کہ خُونِ بادِ صبا
سارے الزام اپنے سر رکھیے
روشنی کا سفر مدام رہے
زخم ماتھے پہ تازہ تر رکھیے
بہار تھی، نہ چمن تھا، نہ آشیانہ تھا
عجیب رنگ میں گزرا ہوا زمانہ تھا
بہ فیض خون جگر اب وہ ہو رہا ہے چمن
کبھی جو میرے مقدر سے قید خانہ تھا
حدود کون و مکاں میں بھی جو سما نہ سکا
مِری حیات کا وہ مختصر فسانہ تھا
کیسا جشنِ بہار ہے اپنا؟
گُل پہ سایہ بھی بار ہے اپنا
سِسکیاں لے رہی ہے شامِ فراق
پھر مجھے اِنتظار ہے اپنا
عشق کا راگ کس نے چھیڑ دیا
ہر نفس شعلہ بار ہے اپنا
کس نے پہنی ہوئی ہیں زنجیریں
کتنی سہمی ہوئی ہیں زنجیریں
آج تُو اپنا شوق پورا کر
ہم نے دیکھی ہوئی ہیں زنجیریں
کل جنوں رقص کر رہا تھا یہاں
گھر میں بکھری ہوئی ہیں زنجیریں
دل غموں سے چھدا بانسری کی طرح
آدمی اب نہیں آدمی کی طرح
ہم نے چاہا نہیں تھا مگر یوں ہوا
دشمنی نبھ گئی دوستی کی طرح
روپ، رس، گندھ کی بات کیا کیجیے
زندگی ہی نہیں، زندگی کی طرح
ندی سے کوئی بھی پیاسا نہ جائے
کناروں سے اگر اُلجھا نہ جائے
یہ مانا بن چکا ہے پل ندی پر
مگر ملاح سے اُلجھا نہ جائے
سمندر کی بس اتنی آرزو ہے
ندی کا راستہ روکا نہ جائے
جس کو ہو خود تلاش کسی سائبان کی
دیوار کیا بنے گا وہ گرتے مکان کی
مٹی پڑی ہوئی ہے تعصب کی آنکھ میں
وہ قدر کیا کرے گا ہماری اڑان کی
دیکھیں گے کس کے دل میں گلستاں کا درد ہے
ہم چاہتے ہیں آئے گھڑی امتحان کی
خزاں کے زخم ہوا کی مہک سے بھرنے لگے
نگار گل کے خد و خال پھر نکھرنے لگے
یہ سوکھے سہمے شجر دیکھ مارچ آنے پر
تیرے بدن کی طرح شاخ شاخ بھرنے لگے
غم حیات پھر آنے لگی صدائے جرس
دیار شب سے ترے قافلے گزرنے لگے
ایسی نگاہ لطف و کرم مجھ پہ کر کہ بس
آنکھوں کی مے سے جام طلب میرا بھر کہ بس
میں نے بہت تلاش کیا آپ کو مگر
آخر میں آ کے بیٹھ گیا اپنے گھر کہ بس
مٹتی ہوئیں تمام یہ عمدہ روایتیں
نادم ہوا ہوں دیکھ کے میں اس قدر کہ بس
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ورد زباں درودﷺ ہو رغبت لیے ہوئے
حمدِ خدا میں لکھوں اطاعت لیے ہوئے
خالق ہے وہ سبھی کا نہیں اس کی ہے مثال
ہر شے پہ اس کا حکم ہے قدرت لیے ہوئے
نعتِ نبیؐ میں کر سکوں، میری کہاں مجال
اللہ خود ہے انﷺ کی محبت لیے ہوئے
اب درد دل سے کہہ دو کہ چھپ کر وہیں رہے
آنکھوں کے آنسوؤں سے مراسم نہیں رہے
ان پر ہُوا نہ وقت کے مرہم کا کچھ اثر
یادوں کے ایسے زخم ہیں بھر بی نہیں رہے
اک دن بچھڑنا طے تھا سو آخر بچھڑ گئے
بس ہے دُعا وہ خُوش رہے چاہے کہیں رہے
ذکر عشرت ماضی قصہ ہے فسانہ ہے
آج غم کی دنیا ہے،۔ درد کا زمانہ ہے
دیدنی ہے آرائش اب نگارِ ہستی کی
زندگی کی زُلفوں میں کشمکش کا شانہ ہے
نذرِ جور گُلچیں ہے، برق کی بھی زد میں ہے
ہائے، وہ چمن اپنا جس میں آشیانہ ہے
محبت پھول بھی ہے خار بھی ہے
یہ ویرانہ بھی ہے گلزار بھی ہے
فروزاں کرکے دیکھے شمع دل کو
پتنگا پیکر انوار بھی ہے
کمال آگہی پر مرنے والو
کمال آگہی آزار بھی ہے
دور بہت دور انسان شاہراہِ ارتقا پر
اے گردش ایام بس اب روک نہ مجھ کو
اے کاوش انجام بس اب روک نہ مجھ کو
اے لغزش ہر گام بس اب روک نہ مجھ کو
جانا ہے مجھے دور بہت دور بہت دور
وہ جنت شداد ہو یا آتش نمرود
ہر منزل موہوم نہیں منزل مقصود
حاکم وقت ہو اجازت کیوں
وقت کو وقت کی ضرورت کیوں
🗡تیر، تلوار، زہر اور خنجر↑
سب ہی اپنے ہیں پھر شکایت کیوں
میں نے خود کو تلاش کر ہی لیا
اب مجھے آپ کی ضرورت کیوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جب وقت بنا ہے قد زیبائے محمدﷺ
خود خالقِ اکبر ہوا شیدائے محمدﷺ
زیبا ہے عجب عارضِ زیبائے محمدﷺ
دلکش ہے غضب زلفِ چلیپائے محمدﷺ
ہر چیز رہی اپنی جگہ جامد و ساکت
یوں عرش پہ اللہ سے مل آئے محمدﷺ
برسوں تپش غم میں یہ احساس جلے ہے
تب جا کے کہیں شعر کے سانچے میں ڈھلے ہے
کچھ ایسے تیری بزم میں بیٹھا ہوں اکیلا
جس طرح سرِ راہ کوئی شمع جلے ہے
اللہ کسی شخص کو رسوا نہ کرے یوں
مجھ سے مِرا سایہ بھی تو اب بچ کے چلے ہے
وہ نظر نا مہرباں ہوتی گئی
زندگی بارِ گِراں ہوتی گئی
رشتۂ دل اس نے توڑا ہم سے جب
اک حقیقت داستاں ہوتی گئی
گو زباں چُپ تھی مگر میری نظر
میرے دل کی ترجماں ہوتی گئی
خُود کو بھی سچ سچ بتا پایا نہ میں
آئینے سے کیوں نبھا پایا نہ میں
اتنی عُجلت تھی بتانے کی مجھے
جو بتانا تھا،۔ بتا پایا نہ میں
اس لیے رشتوں میں دُشواری ہوئی
چہرے پر چہرہ لگا پایا نہ میں
تِرا جلوہ جہاں ہو آشکارا
وہی کعبہ، وہی قبلہ ہمارا
رہا باقی نہ جب کوئی بھی یارا
اناالحق کہہ اٹھا الفت کا مارا
ذرا ہو جائے ساقی کا اشارا
ابھی جھوم اٹھے یہ میخانہ سارا
درد و غم زمانے کے اور ایک جی تنہا
آندھیوں میں جلتی ہے شمع زندگی تنہا
اپنی اپنی راہیں ہیں اپنی اپنی منزل ہے
کارگاہ ہستی میں رہتے ہیں سبھی تنہا
شب سے داغ ہجراں کا واسطہ عجب شے ہے
تیری دل کشی تنہا، میری بے کلی تنہا
بِن تِرے خود کو عِبارت تو نہیں کر سکتا
تنہا تعمیر عِمارت تو نہیں کر سکتا
نُور انعام مِلا ہے مِری آنکھوں کو مگر
رہن میں اپنی بصارت تو نہیں کر سکتا
نا امیدی سے بھلا میرا تعلق کیسا؟
اپنی یہ عُمر اکارت تو نہیں کر سکتا
یار کے بھیس میں محبوب ستم گر نکلا
پھول ہم جس کو سمجھتے تھے وہ پتھر نکلا
ایک روٹی کے عوض دے گیا جنت کی دعا
میرے کوچے کا بھکاری بھی مخیر نکلا
آج کل آنکھ کا دیکھا بھی غلط ہوتا ہے
جس کو سمجھے تھے اپاہج وہ تونگر نکلا
شکستہ پا ہیں کوئی آسرا بناتے ہیں
مٹا کے خود کو جو ہم اک خدا بناتے ہیں
ہمیں شعور حقیقت نہیں سو ہم اکثر
فریب جنبش بال ہما بناتے ہیں
وہ اپنے حسن کا ہر راز کھولنے کے لیے
قبا بناتے ہیں بند قبا بناتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل کی حسرت ہے کہ ہر آن مدینے میں رہے
"مجھ خطار کار سا انسان مدینے میں رہے"
دور وہ کیسے رہے آپ کے در سے مولاﷺ
جس کے ہر درد کا درمان مدینے میں رہے
رشک ہے شمس و قمر کے لیے ان کی ہستی
جو محمدﷺ کے محبان مدینے میں رہے
اس نے مذاق سمجھا مِرا دل دُکھا گیا
پھر موم بتیوں کو ہمیشہ بُجھا گیا
نکلا تھا خُود کو ڈھونڈنے اس ریگزار میں
مایوس ہو کے راستہ واپس چلا گیا
اک اک گلی میں ڈھونڈ رہی تھی ہوا مجھے
لہروں کے ساتھ ساتھ مِرا نقشِ پا گیا
کوئی دعا نہ کوئی چارہ گر سنبھالے گا
کہ اب یہ زخم ہی میرا جگر سنبھالے گا
وہ عکس جس سے نہیں کوئی آئینہ محفوظ
درونِ آب وہی چشمِ تر سنبھالے گا
جو برقرار بنوعِ دِگر ہے ٹوٹ کے بھی
وہ سلسلہ ہی ہمیں عمر بھر سنبھالے گا
سائے سے پوچھ رہا ہے قد و قامت کیا ہے
دُشمنِ عقل! تِری عقل سلامت کیا ہے؟
شاخ لرزاں ہو تو پھر کیسے پرندے ٹھہریں
کون سمجھائے یہاں شرطِ اقامت کیا ہے؟
در و دیوار میں ہیں خوف کے سائے پنہاں
کوئی بتلائے مجھے گھر کی علامت کیا ہے؟
مِرے اِرد گِرد جو حِصار تھا، وہ نہیں رہا
مجھے خود پہ کچھ اعتبار تھا، وہ نہیں رہا
وہ جو دُھوپ تھی کسی خیال کی اسے کھو دیا
وہ جو خواب وقفِ بہار تھا، وہ نہیں رہا
نہ دریچہ وا، نہ ہی نامہ بر، نہ صدا کوئی
پسِ خوابِ جاں جو دیار تھا، وہ نہیں رہا
دشمنی چلتی رہی یاروں کے بیچ
پھول بھی کھلتے رہے خاروں کے بیچ
ہو اگر ایمان کامل آج بھی
رقص ہو سکتا ہے انگاروں کے بیچ
دوستی کی چھت بنانا چاہیے
ہم کو بھی رہنا ہے دیواروں کے بیچ
خود پہ الزام دھر گیا ہوں میں
کام مشکل تھا کر گیا ہوں میں
کیسی دہشت سے بھر گیا ہوں میں
خواب میں جیسے ڈر گیا ہوں میں
جانے کس شے کی ہے تلاش مجھے
کو بہ کو در بدر گیا ہوں میں
کرتے بھی اگر ہم تو بے کار تھی توبہ
ٹُوٹے طوافِ حُسن پہ ہر بار ہی توبہ
کیونکر جمالِ یار کو ہم ہی نہ سراہتے
مخمُور اداؤں پہ خود سرشار تھی توبہ
ہو سکتا ہے اُن پہ ہو کوئی خاص نوازش
اپنے تو کام آئی نہ اِک بار بھی توبہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نوری موسم نوری رنگت ہر طرف جلوہ ہوا
دو جہاں کا حال بھی تو ہو بہو ایسا ہوا
آمد خیر الوریٰﷺ کا جب مہینہ آ گیا
پھر تصور میں تجلّی کا اثر پیدا ہوا
بت گرا ہے منہ کے بل مجرے میں ہے کعبہ جھکا
کس کی آمد ہے کہ عالم خوب ہے چمکا ہوا
یہ دل فریبِ تمنا میں بے قرار کِیا
یہی ہے جُرم جسے ہم نے بار بار کیا
نہ ہم نے سُود و زیاں دیکھ کر محبت کی
نہ نفرتوں کا کبھی ہم نے کاروبار کیا
شکستہ رُوح، سُلگتی نِگہ، دلِ مہجور
نہ پُوچھ کیسے ہر اک زخم کا شمار کیا
کوشش
کئی دنوں سے میرے سر میں
صبح شام اور رات رات بھر
نا امید پرندے اڑتے رہتے ہیں
انہیں روکنا مشکل ہے
لیکن اپنی کالی کالی زلفوں میں
گھونسلہ کرنے سے
شکوہ ہائے غمِ جہاں سے بچیں
آ، کہ ہم سعئ رائیگاں سے بچیں
آ، کہ سمجھیں زمیں کی خُوش سببی
بے سبب خوف آسماں سے بچیں
چھین لے جو یقین کی توفیق
لازماً ایسے ہر گُماں سے بچیں
ہماری کون سُنے گا کسی سے آس نہیں
یہاں تو دُور تلک کوئی غم شناس نہیں
تمام عُمر میں اک شخص ہی کمایا گیا
ستم تو دیکھیے اب وہ بھی میرے پاس نہیں
سب اپنے دل کو ہتھیلی پہ لے کے پھرتے ہیں
تمہارے شہر میں عزت کسی کو راس نہیں
ٹمٹماتے ہوئے تاروں نے کہا صبح بخیر
آج پھر نیند کے ماروں نے کہا صبح بخیر
جیسے ہی شمس نے بکھرائیں زمیں پر کرنیں
تیری پلکوں کے اشاروں نے کہا صبح بخیر
جب کبھی جھانک کے آنکھوں میں صبا کی دیکھا
مجھ کو پُر کیف نظاروں نے کہا صبح بخیر
دیر مجھ سے کبھی ہو جائے تو دُکھ ہوتا ہے
منتظر ہار کے سو جائے تو دکھ ہوتا ہے
چور رہتا ہے تگ و تاز سے میرا بھی بدن
جب عیاں چہرے سے ہو جائے تو دکھ ہوتا ہے
جس کی دمسازی سے دم خم ہو لب و لہجے میں
خار لفظوں کے چبھو جائے تو دکھ ہوتا ہے
کوئی تو بات کرے التجا قبول کرے
اسے کہو کہ مِرا فیصلہ قبول کرے
میں چاہتا ہوں مِرے عشق میں الگ ہو کچھ
میں بیوفائی کروں وہ وفا قبول کرے
دعائیں مانگتے رہئیے حریف لمحوں میں
نہ جانے کب وہ ہماری دعا قبول کرے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بگڑی ہوئی امت کی تقدیر بناتے ہیں
بگڑی ہوئی امت کی تقدیر بناتے ہیں
سرکارؐ کی محفل میں سرکارؐ بھی آتے ہیں
انوار برستے ہیں رحمت کے سر محفل
جب شاہ مدینہﷺ کی ہم نعت سناتے ہیں
دامانں رسالتؐ میں ملتی ہے پناہ ان کو
فرقہ کشی کا کوئی بھی مطلب دکھائیے
غارت گروں کا ایک ہی مذہب دکھائیے
مِلّی حقیقتوں پہ ہے پردہ پڑا ہوا
فکر و نظر کا آپ ہی کوکب دکھائیے
قدریں خلوص کی ہیں پراگندہ کم ابھی
رُتبے میں دھونس دیجیے منصب دکھائیے
نفرت اور محبت
تم سے نفرت کرنا چاہتی ہوں
مگر محبت کے سائے پر
نفرت کی ایک بھی کِرن
حاوی نہیں ہو پاتی
اور نہ چاہتے ہوئے بھی
ان پر
دل پر نگاہِ ناز کا جادو جو چل گیا
وہ سرحدِ شعور سے آگے نکل گیا
چھت پر مِری اترتی نہیں دھوپ آج کل
سورج مِرے خلاف کوئی چال چل گیا
لوگوں نے مجھ کو اپنی نظر سے گِرا دیا
جس دن سے میں خلوص کے سانچے میں ڈھل گیا
فقط اشیاء کی قیمت دیکھتا ہوں
میں سب حسبِ ضرورت دیکھتا ہوں
مِرا انکار بھی میرا نہیں ہے
میں بس تیری سہولت دیکھتا ہوں
وہ رستہ بھول جاتا ہوں سفر میں
جسے میں وقتِ رُخصت دیکھتا ہوں
جاتا ہے صبر بے سر و ساماں کیے ہوئے
دل کو رہینِ حسرت و ارماں کیے ہوئے
دو دن کی زندگی کا اللہ فریب رے
دارالمحن میں ہے مجھے مہماں کیے ہوئے
جاتا کہاں ہے اب یہ اداؤں کا قافلہ
دل کو مِرے حوالۂ ارماں کیے ہوئے
ہم نے بہار نو کو عطا کی لہو کی آنچ
صحنِ چمن میں پھیل گئی رنگ و بو کی آنچ
ڈالے حنائی ہاتھ جو پانی میں شوخ نے
لہروں پہ رقص کرنے لگی آبِ جُو کی آنچ
یوں عکسِ ماہتاب لرزتا ہے جھیل پر
چلمن سے کھیلتی ہو کسی خوبرو کی آنچ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بیاں ہو کس طرح تطہیر کی اک ایک آیت کا
وہ جن کی خاک سے بنتا ہے خاکہ میری جنت کا
رسول اللہﷺ کی چاہت، محبت اور حُرمت کا
کوئی اندازہ کر سکتا ہے کیا ماؤں کی عظمت کا
لباسِ سرورِ کون و مکاںؐ کہہ دوں تو بر حق ہے
انہیں ارمانِ شاہِ دو جہاںؐ کہہ دوں تو بر حق ہے
دعوت نامہ
زندگی
ایک دن
مجھ کو بھی تلخ کر دے گی
میں
خوشیوں کو دعوت دیتے
تھکنا نہیں چاہتی
جنون سر سے اُتر گیا ہے
وجود لیکن بکھر گیا ہے
بہت خسارہ ہے عاشقی میں
تمام علم و ہُنر گیا ہے
میں اور ہی شخص ہوں کوئی اب
جو شخص پہلے تھا مر گیا ہے
اپنے گھر کو تباہ کر کے میں
سرخرو ہوں نباہ کر کے میں
جھوٹ بولا ہے، دل نہیں توڑا
مطمئن ہوں گناہ کر کے میں
آسمانوں سے لوٹ آیا ہوں
بال و پر میں پناہ کر کے میں
حرف دریا ہے دل سمندر ہے
پیاس پھر بھی مِرا مقدر ہے
تم کہاں تک مجھے سنبھالو گے
راہ میں ہر قدم پہ ٹھوکر ہے
میرے آنسو کو ایک اک قطرہ
اپنی اپنی جگہ سمندر ہے
ست گُرو لکھ یا رحیم و رام لِکھ
ایک ہے اس کے ہزاروں نام لکھ
آنسوؤں سے حسرتِ ناکام لکھ
کوئی خط ایسا بھی اس کے نام لکھ
پی گیا جو ظُلمتوں کو گھول کر
ایک دریا ہے اسے گُمنام لکھ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مرقوم لوح دل پہ محبت علیؑ کی ہے
ایمان کے نگر میں عقیدت علی کی ہے
بچوں میں اولیں ہیں مصدق رسولؐ کے
بچپن سے یعنی ایک کرامت علی کی ہے
پاؤں میں آبلے ہیں پیمبرؐ کے عشق میں
اک داستان شوق، یہ ہجرت علی کی ہے
معجزہ
پھر اک دن
معجزہ یہ بھی تو ہونا ہے
ذرا ٹھہرو
ہمیں مِلنا تو ہے
اک دن تم اپنے دل کو سمجھاؤ
ابھی موسم نہیں بدلا
ملا رانگ نمبر وہ یادیں پرانی
سکهر کا دسمبر، وہ یادیں پرانی
ملا رانگ نمبر، وہ یادیں پرانی
ہمیں پهر کچل کر گیا ہے ابھی بهی
وہ یادوں کا لشکر، وہ یادیں پرانی
دعائیں، ادائیں، محبت کے دھاگے
وہ سیوہن قلندر، وہ یادیں پرانی
اے خیالِ یار تُو دل میں جو مہماں ہو گیا
پھر دلِ ویران مِرا، رشکِ گُلستاں ہو گیا
تھی مِرے دل کی اُمنگوں ہی سے دنیا کی بہار
دل پریشاں کیا ہوا، عالم پریشاں ہو گیا
دم محبت کا بھرا کرتا تھا جو دل وصل کی
اب وہ شامِ ہجر آتے ہی پشیماں ہو گیا
ہم اپنے دکھ کو گانے لگ گئے ہیں
مگر اس میں زمانے لگ گئے ہیں
کسی کی تربیت کا ہے کرشمہ
یہ آنسو مسکرانے لگ گئے ہیں
کہانی رخ بدلنا چاہتی ہے
نئے کردار آنے لگ گئے ہیں
زندگی زندہ دلی ہے، مردنی چھا جائے کیوں
موت کی آغوش میں جانے سے پھر گھبرائے کیوں
کشمکش ہے اس لیے قاصد کا ہے بس انتظار
ناز ہے اپنی وفا پر بن بلائے جائے کیوں
کیوں نہ ہو جلوہ نما جو دوستی جب عام ہے
پھر نگاہِ شوق کو وہ اس قدر ترسائے کیوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بیٹیاں رحمت و شفقت کی گھٹا ہوتی ہیں
دل سے ماں باپ کی الفت میں فدا ہوتی ہیں
رہ کے خاموش بھی یہ محوِ دعا ہوتی ہیں
جیسے چڑیوں کے چہکنے کی صدا ہوتی ہیں
بیٹیاں مالکِ رحمت کی عطا ہوتی ہیں
اہلِ رحمت کی سماعت میں اذانِ رحمت
تم سے ملی ہر چیز
میں نے بہت سنبھالے رکھی ہے
پھر چاہے وہ تمہاری یاد ہو
تمہارے الفاظ ہوں
کوئی تحفہ ہو
یا تمہاری دی ہوئی تکلیف
اس جہاں میں اب کوئی میرا ہے نہ تیرا ہے
میرے آستانے کو آندھیوں نے گھیرا ہے
پوچھیے نہ یہ مجھ سے میں کہاں پہ رہتا ہوں
بجلیوں کے زد پر ہی اب مِرا بسیرا ہے
رات کٹ ہی جائے گی، اس کا علم ہے مجھ کو
کروٹیں بدلنا ہے،۔ بعد میں سویرا ہے
خفا ہم سے وہ بے سبب ہو گیا
غضب ہو گیا ہے غضب ہو گیا
تصور میں زلف و رخ یار کے
مِرا روز مانند شب ہو گیا
میں آگے تو دیوانہ اتنا نہ تھا
خدا جانے کیا مجھ کو اب ہو گیا
کل رات کو گر کے ہاتھوں سے
وہ وقت کا ساغر ٹوٹ گیا
پھر ٹوٹے ہوئے اس ساغر نے
یادوں کے دریچے کھول دئیے
یادیں جو میرا سرمایہ ہیں
یادیں جو ابھی تک زندہ ہیں
سہیلی
میں کل یگ کی پیڑا کا گوتم
تپسیا کے تانے ہوئے جال میں
سب بسارے ہوئے
اپنے نروان میں تھا
ابھیمان میں تھا
ابھیمان کارن ہے سب مُورکھتا کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر ایک فیصلہ دائم اٹل ہے قرآں کا
نظامِ دہر میں جاری عمل ہے قرآں کا
نہ روک پائے گی اس کو کبھی کوئی ظلمت
تجلّیوں سے بھرا پَل بہ پَل ہے قرآں کا
لَحافظون کی آیت بتا رہی ہے ہمیں
کہ نورِ حرف و سخن لم یزل ہے قرآں کا
ممتاز فلسطینی/اردنی شاعرہ کے عربی کلام کا اردو ترجمہ
کیسا سوگوار موسم ہے یہاں
آسمان ہر آن اک دھند میں لپٹا ہوا ہے
’’تم کہاں کی رہنے والی ہو؟۔ اسپین کی؟‘‘
نہیں، میں، میں اردن کی بیٹی ہوں‘‘
اردن؟ معاف کرنا میں سمجھ نہیں پائی
میرا وطن قدس کی ہنستی پہاڑیاں ہیں
قیدیو تم جہاں کہیں بھی ہو
تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے
مجھے بھیج دو
ڈر، چیخیں، تنگدستی
دنیا بھر کے محنت کش مزدورو
تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے
جس طرح بدلا ہوں میں بدلے گی کیا
میری بستی مجھ کو پہچانے گی کیا
زخم سر ہے آپ اپنی داستان
پتھروں سے زندگی پوچھے گی کیا
تیرگی نے مسخ کر دیں صورتیں
آنے والی روشنی دیکھے گی کیا
اللہ رحم اب تو یہ حالات ہو گئے
بچے کسی غریب کے بھوکے ہی سو گئے
پھولوں کی آرزو تھی مگر یہ بھی کم نہیں
احباب میری راہ میں کانٹے تو بو گئے
کہنے کا شوق ہے تو ہو سننے کا عزم بھی
یہ کیا کہ آہ باتوں ہی باتوں میں رو گئے
سامنے میرے ہے دنیا جیوں سمندر ریت کا
اور سب کی زندگی جیسے ٭بونڈر ریت کا
ریت کی دیوار کے سائے میں بیٹھا آدمی
اور سائے پر بھروسہ دل کے اندر ریت کا
ریت کے محلوں میں رہتے کاروباری ریت کے
جیت کر دنیا رہے گا ہر سکندر ریت کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کرتے ہیں نعت گوئئ جان جہاںﷺ کا رُخ
ظاہر ہو کچھ اسی سے اب عشق نہاں کا رخ
دعویٰ تھا حسن کا مگر آقاﷺ کو دیکھ کر
شرمندگی سے سرخ ہوا کہکشاں کا رخ
سرکارﷺ آپ ہی تو ہمارے مغیث ہیں
جز آپ کے کریں تو کریں ہم کہاں کا رخ
محبت
محبت پھول ہے ایسا
جو مرجھا بھی اگر جائے
تو خوشبو پھیل جاتی ہے
محبت لفظ ایسا ہے
جہاں لکھ دو وہاں ہر سو
اجالا پھیل جاتا ہے
دستک دے زنجیر کی صورت آ
دست نوا تحریر کی صورت آ
ملنا کیا ہے بیٹھ کنارے ہو
کچھ تو بنے تعمیر کی صورت آ
طرز کشیدہ کیوں یہ ترا مجھ سے
طور جراحت تیر کی صورت آ
بھوک
ایک گالی جو کیچڑ کے مانند چسپاں ہوئی
ہونٹ جو کاسۂ مفلسی بن گئے
ہاتھ جو گردنوں پر جھپٹنے لگے
اور چاول کے جب چند دانے ملے
انتڑیوں کا یہ آتش فشاں بجھ گیا
پیٹ کی بھوک سچ مچ جہنم کا تنور ہے
ہدف ہوں دشمنِ جاں کی نظر میں رہتا ہوں
کسے خبر ہے قفس میں کہ گھر میں رہتا ہوں
اِدھر اُدھر کے کنارے مجھے بلاتے ہیں
مگر میں اپنی خوشی سے بھنور میں رہتا ہوں
نہ میں زمیں ہوں نہ تو آفتاب ہے پھر بھی
تِرے طواف کی خاطر سفر میں رہتا ہوں
جب سے مِری جاناں نے پھیری ہے نظر اپنی
بے کیف ہے حد درجہ یہ شام و سحر اپنی
پُر شور ہواؤں نے کیا حال کیا سب کا
اب خیر مناتی ہے ہر شاخِ شجر اپنی
جس روز سے گزرا ہے لشکر کسی ظالم کا
اس دن سے لرزتی ہے یہ راہگزر اپنی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ثنا بیان کروں تیری مِری مجال نہیں
کہ صدیاں چاہیے لکھنے کو مہ و سال نہیں
تخیلات کی جنبش بھی تیری مرضی پر
مِرا خیال بھی آخر مِرا خیال نہیں
جہاں بھی ٹہرے نظر تیرا جلوہ پائے ہے
تُو لا زوال ہے ہر گز تِرا زوال نہیں
دل کسی وادی میں جا کے سو گیا
چہکتے رہے مہکتے رہے
برسوں کی دیوانگی کا
نتیجہ نہ کوئی صلہ
کیوں انتظار بہار کرتے رہے
کانٹوں کو پیار کرتے رہے
یہاں تک کہ
پھینکے جو میں نے سکے تو رشتہ بدل گیا
سرکاری اسپتال میں بچہ بدل گیا
سوچا تھا آسمانوں کو چھو لیں گے ایک دن
آ کر تمہارے گاؤں میں حلیہ بدل گیا
پیسہ کمانے عورتیں گھر سے نکل پڑیں
اکیسویں صدی کا تقاضہ بدل گیا
گھر سے نکل کے آئے ہیں بازار کے لیے
یہ بھیڑ بھاڑ اچھی ہے بے کار کے لیے
ہم یار کے لیے ہیں نہ دیدار کے لیے
ٹیرس پہ آ کے بیٹھے ہیں اخبار کے لیے
دلجوئی کر رہا ہے بہت دیر سے طبیب
کیا آخری دوا ہے یہ بیمار کے لیے؟
ایک مجبور تہہ دام بلا کیا کرتا
نہ تڑپتا تو تڑپنے کے سوا کیا کرتا
غیر پابندئ آئینِ وفا کیا کرتا
میری تقلید کوئی میرے سوا کیا کرتا
چارہ گر کو مِرے احباب نہ بدنام کریں
لا دوا درد کی بے چارہ دوا کیا کرتا
تاروں سے اور بات میں کمتر نہیں ہوں میں
جُگنو ہوں اس لیے کہ فلک پر نہیں ہوں میں
صدموں کی بارشیں مجھے کچھ تو گُھلائیں گی
پُتلا ہوں خاک کا، کوئی پتھر نہیں ہوں میں
دریائے غم میں برف کے تودے کی شکل میں
مُدت سے اپنے قد کے برابر نہیں ہوں میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
صبح تیری ہے، تِری شام، رسول عربیﷺ
سارا عالم ہے تِرے نام، رسول عربیﷺ
دل ، تِرے کعبۂ اوصاف کا کرتا ہے طواف
باندھ کر نعت کا احرام، رسول عربیﷺ
کب سے امّید کی چھت پر ہے تمنائے نظر
آ، مِرے چاند! سرِ بام، رسولِ عربیﷺ
تاج باقی ہیں نہ محلات خدا خیر کرے
چھوڑ دو یارو! خرافات خدا خیر کرے
مدتوں بعد گلے مل گئے دشمن سارے
اب سُدھرنے کو ہیں حالات خدا خیر کرے
پیٹ کی آگ نے دنیا ہی جلا کر رکھ دی
اب نہ باقی رہے جذبات خدا خیر کرے
میں گنہگار اک جہان کا ہوں
قید کی زندگی گزارتا ہوں
روشنی مجھ کو راس آئی نہیں
تیرگی سے پناہ مانگتا ہوں
تم ابھی زندگی کی چاک پہ ہو
اور میں چُور چُور ہو چکا ہوں
یہ لمحہ وصل کا جادو ہمیں معلوم ہوتا ہے
یہاں پر حادثہ آہو ہمیں معلوم ہوتا ہے
حقیقی عشق سوچیں تو بڑا ہی لطف آتا ہے
سچا تو عشق کا آنسو ہمیں معلوم ہوتا ہے
وہ تپتی ریت پر مجھ کو کبھی بادل سا مل جائے
پیاسا دید کا سادھو ہمیں معلوم ہوتا ہے
پھیلتے جاتے ہیں افسانے بہت
ایک لیلیٰ کے ہیں دیوانے بہت
پینے والوں کو بقدرِ تشنگی
خود صدا دیتے ہیں میخانے بہت
وارداتوں میں سہولت کے لیے
کھل رہے ہیں جا بجا تھانے بہت
ماں جی کے لیے نظم
ماں آگ ہے، پانی ہے نہ مٹی نہ ہوا ہے
ماں نور کی تاثیر ہے، احساسِ خدا ہے
ماں سلسلۂ خلق ہے، عرفاں کا تقدس
ماں سارے زمیں زاد نصابوں سے ورا ہے
ماں گہرے جگر سوز مسائل میں کماں ہے
ماں پیر ہے، محبوب ہے، اللہ کی رضا ہے
عشق ناکام تو نہیں ہو گا
مجھ پہ الزام تو نہیں ہو گا
جس کی خاطر بھلا دیا سب کچھ
شخص وہ عام تو نہیں ہو گا
تیرے ہاتھوں میں دیکھیے اک دن
زہر کا جام تو نہیں ہو گا
دل درد سے بہلا ہے تو غمخوار کھلے ہیں
کیا کیا نہ تیری چاہ کے اسرار کھلے ہیں
یوں بیٹھ رہو گے تو وہی شہر غم دل
اٹھو تو کئی رنگ کے بازار کھلے ہیں
ہر کوئے تمنا میں چراغاں کا سماں ہے
ہر گوشۂ پہلو میں طرب زار کھلے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سائل صدا یہ دیتا ہے جُود و سخا کے بعد
کچھ بھی نہ چاہیے شہِ دیںؐ کی عطا کے بعد
بخشش کرے گا رب میری میدانِ حشر میں
اپنے حبیب سرورِ دیںﷺ کی رضا کے بعد
راحت نصیب ہو گی تجھے دو جہان میں
محبوبِ کائناتﷺ کی مدح و ثنا کے بعد
بندگی اور سرکشی کی حد میں ہے
اس قدر دل آگہی کی حد میں ہے
اس کہانی میں انا ہے میرے دوست
یہ کہانی دل لگی کی حد میں ہے
اچھا ہوتا دوست ہی رہتا، مگر
شکر ہے وہ دشمنی کی حد میں ہے
گھر کو ویرانہ کریں عیش کی پروا نہ کریں
تیری آنکھوں کا اشارہ ہو تو کیا کیا نہ کریں
دست وحشت ہو تو کیوں بات جنوں کی جائے
جیب و دامن ہیں تو کیوں گل کی تمنا نہ کریں
آپ سے میری گزارش ہے کیوں یوں شام و سحر
میری خواہش سے زیادہ مجھے دیکھا نہ کریں
جب کبھی ان سے بات ہوتی ہے
وجد میں کائنات ہوتی ہے
جب بھی آتی ہے اس کو انگڑائی
چاندنی حسن ذات ہوتی ہے
جب تلک کوئی ہم کنار نہ ہو
زندگی بے ثبات ہوتی ہے
زعفرانی کلام
کیا جوانی میں کھیل کھیلے ہیں
اب بڑھاتے میں ہم اکیلے ہیں
محفل گل رخاں میں رہتے تھے
ہم بھی کیسے جہاں میں رہتے تھے
ہائے کیسا بدل گیا منظر
آئینہ تھوکتا ہے اب منہ پر
اسے تم سے محبت ہے غلط فہمی میں مت رہنا
یہ بس دل کی شرارت ہے غلط فہمی میں مت رہنا
تمہی کو دیکھ کر وہ مسکراتا ہے تو حیرت کیا
اسے ہنسنے کی عادت ہے غلط فہمی میں مت رہنا
ہوئے برباد تو اب آہ و زاری کر رہے ہو تم
کہا بھی تھا سیاست ہے غلط فہمی میں مت رہنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کلی کلی کی زباں پر یہ نام کس کا ہے؟
نسیم صبح بتا! ذکر عام کس کا ہے؟
زمانہ گیسو و رخ ان کے دیکھ کر بولا
یہ شام کس کی، یہ ماہ تمام کس کا ہے؟
قمر اشارے سے شق، مہر حکم سے واپس
کوئی بتائے کہ یہ احترام کس کا ہے؟
کسی کے عشق میں یہ حال زار رہتا ہے
سکون پا کے بھی دل بے قرار رہتا ہے
وہ مے کدہ میں بہت با وقار رہتا ہے
جو بے خودی میں بھی کچھ ہوشیار رہتا ہے
مجھے بہار گلستاں پہ ناز ہو کیوں کر
مری نظر میں مآل بہار رہتا ہے
کثرت اولاد (زعفرانی کلام)
جب محبت حال پر اپنے کرم فرما گئی
عاشقی قیدِ شریعت میں جب اپنی آ گئی
کثرت اولاد کے جلوے ستم ڈھانے لگے
ہم میاں بیوی قریب آنے سے کترانے لگے
اس قدر بچے بڑھے رومانس چوپٹ ہو گیا
اس طرف کمرہ، ادھر دالان چوپٹ ہو گیا
اب تو جینے کی کوئی آس نہیں
تیری یادیں بھی میرے پاس نہیں
سیکھ لیتے ہیں وہ فن الفت
دیر میں عشق کا کلاس نہیں
دیکھ لوں تیری نرگسی آنکھیں
اور کوئی بھی مجھ کو پیاس نہیں
زخم بھرنے میں وقت لگتا ہے
شب گزرنے میں وقت لگتا ہے
جوں بگڑنے میں وقت لگتا ہے
یوں سنورنے میں وقت لگتا ہے
آؤ، رستے میں بات کرتے ہیں
بات کرنے میں وقت لگتا ہے
صحیفہ پڑھ رہا ہوں بے بسی کا
تعاقب کر رہا ہوں تیرگی کا
اٹھو یارو! جہان کن فکاں میں
بڑھائیں اور رتبہ آدمی کا
تمہاری سمت کیسے لوٹ آؤں
ارادہ ہی نہیں ہے واپسی کا
کس تیقن تلک گئے ہم لوگ
پھر بھی اے دل بھٹک گئے ہم لوگ
مثل دریا ملی تھی سیرابی
مثل ساحل بلک گئے ہم لوگ
یوں ہی اک دن سفر کیا آغاز
یوں ہی اک روز تھک گئے ہم لوگ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نعتِ حبیبﷺ کہیے کہ حمدِ خدا بھی ہے
توصیف مصطفیٰﷺ کی، خدا کی ثناء بھی ہے
تُو اصلِ کُنْ ہے، حاصلِ ہر مُدعا بھی ہے
اے مبتدائے خلق، تُو ہی منتہا بھی ہے
سر تا پا تُو بشر ہے، بشر سے سوا بھی ہے
یعنی، تمام مظہرِ عینِ خدا بھی ہے
جنون عشق سے حل یہ سوال ہو نہ سکا
شعور ہو نہ سکا یا وصال ہو نہ سکا
فراق پردۂ حسن و جمال ہو نہ سکا
جدا نظر سے فروغ خیال ہو نہ سکا
ستم ستم سے جھلکتی رہی بہار کرم
کبھی جلال حجاب جمال ہو نہ سکا
دیکھنے سے بھی میلا ہوتا ہے
اس گلی میں اک ایسا چہرہ ہے
میرا وقت اچھا ہی رہے گا دوست
میرے ماتھے پہ اس کا بوسہ ہے
کس کی صحبت میں دن گزرتے ہیں
رنگ غزلوں میں صاف دکھتا ہے
اسیری بے مزہ لگتی ہے بِن صیاد کیا کیجے
قفس کے کُنج میں تنہا عبث فریاد کیا کیجے
مِری تمکیں گئی مثلِ جرس برباد کیا کیجے
کہ میں تو چُپ ہوں پر کرتا ہے دل فریاد کیا کیجے
اثر کرتا نہیں بِن سجدۂ تسلیم کے نالہ
ہم اس مصرع پہ غیر از حلقۂ قد صاد کیا کیجے
غیر ممکن تھا یہ اک کام مگر ہم نے کیا
تیرے نظارے کو پابند نظر ہم نے کیا
آگے چل کر یہ خدا جانے کہاں رہ جائیں
غیر بھی چل پڑے جب عزم سفر ہم نے کیا
ان خیالات ہی پر ٹوٹ پڑی ہے دنیا
جن خیالات کو کل ذہن بدر ہم نے کیا
زندگی زہر کا اک جام ہوئی جاتی ہے
کیا سے کیا یہ مے گلفام ہوئی جاتی ہے
کچھ گزاری ہے غم عشق و محبت میں
حیات کچھ سپرد غم ایام ہوئی جاتی ہے
پھر کسی مرد براہیم کا محتاج ہے دہر
پھر وہی کثرت اصنام ہوئی جاتی ہے
نہ کوئی تیر نہ کوئی کمان باقی ہے
مگر وہ اک نگہ مہربان باقی ہے
اڑا کے لے گئیں ہجرت کی آندھیاں سب کچھ
بس اپنے سر پہ کھلا آسمان باقی ہے
اک اور تیر چلا اپنا عہد پورا کر
ابھی پرندے میں تھوڑی سی جان باقی ہے
اک کہانی کا اختتام ہوا
مسئلہ خیر سے تمام ہوا
اس کی تعظیم جب بجا لائے
دیکھنا بھی اسے حرام ہوا
ایک تیری گریز پائی سے
کیسی وحشت کا اہتمام ہوا
کیا یہ فریاد لا مکاں تک ہے
یا کہ دعویٰ فقط زباں تک ہے
چھو بھی سکتے ہو چاند تاروں کو
یا کہ پرواز آشیاں تک ہے
مجھ سے جاں میری مانگنے والے
تیری چاہت بتا کہاں تک ہے
غم میں اک لطف شادمانی ہے
ٹھوکروں میں بھی کامرانی ہے
صرف اک عشق غیر فانی ہے
ورنہ ہر چیز آنی جانی ہے
جو نہیں آشنا محبت سے
دل پہ اس بُت کی حکمرانی ہے
یوم اقبال پہ ان کا ایک خاص کلام آپ سب کی نذر
خِرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سِکھائی عشق نے مجھ کو حدیثِ رِندانہ
نہ بادہ ہے نہ صُراحی نہ دورِ پیمانہ
فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزمِ جانانہ
مِری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ مے خانہ
یار اٹھ گئے دنیا سے اغیار کی باری ہے
گل سیر چمن کر گئے اب خار کی باری ہے
زاہد نے عبادت چھوڑ اس زلف سے الجھا ہے
تسبیح کی شیخی گئی، زنار کی باری ہے
اس کاکل مشکیں کی بو ہوئی ہے پریشاں آ
سب شہر ختن لٹ گئے تاتار کی باری ہے
چارہ فرمائی دل رسمِ بُتاں ہے تو سہی
ابھی کچھ مہر و محبت کا نشاں ہے تو سہی
نقشِ پا تیرا ہے گر تُو نہیں اے حشر خرام
اک نہ اک باعث آشوبِ جہاں ہے تو سہی
آپ سے آپ تو پیدا نہیں یہ لالہ و گُل
کوئی آخر چمن آرائے جہاں ہے تو سہی
سکون قلب میسر کے زمانے میں
کہاں کی بزم سخن دل نہیں ٹھکانے میں
یہی روش ہے زمانے کی دل سے ہے مجبور
بتائے کون کہ کیا لطف ہے ستانے میں
جو آئی دل میں زباں سے نکل پڑی وہ بات
مجھے مزا نہ ملا، بات کو چھپانے میں
تقسیم
جدا انسان کو انسان سے کرتے چلے آئے
کبھی مندر، کبھی گرجا، کبھی سورج کی پوجا سے
لگا کر ہر جگہ بازار اسلحے کا
بچے، پھول، شبنم اور پھر سبزہ زمین کا
سب جلا ڈالا
عجب منڈی لگی ہے
زلزال
ہر طرف ڈر ہی ڈر ہے خوف ہی خوف
زلزلوں کا ثمر ہے خوف ہی خوف
مستقل زلزلوں کی زد میں ہیں ہم
گھر ہے یا رہگزر ہے خوف ہی خوف
جانے کیا کھلبلی ہے زیرِ زمیں
اوپری سطح پر ہے خوف ہی خوف
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عشق احمدﷺ نے ایسا سنوارا مجھے
پھول لگنے لگا ہر شرارہ مجھے
ہائے، میرا تڑپنا شب و روز کا
اپنا روضہ دِکھا دو خدا را مجھے
مجھ سا عاصی گزرنے کے قابل نہ تھا
اُن کی رحمت نے پُل سے گزارا مجھے
یہ تہلکہ سا خیالوں میں نہ اکثر ہوتا
دل کے بدلے مِرے پہلو میں جو پتھر ہوتا
نہ ملی چھانو تِری زُلف کی مجھ کو نہ سہی
تیری دیوار کا سایہ ہی میسر ہوتا
میری قسمت میں کٹھن راہ تھی میرے آگے
یہ جو صحرا نہیں ہوتا تو سمندر ہوتا
عزم
دلوں میں
چراغ محبت جلا کر
چلو شب کی تاریکیوں میں
ٹھہرے ہوئے بادلوں میں چھپے
چاند کو ڈھونڈ لائیں
چلو اس بہانے
دامن دل کھینچ سکتی ہی نہیں کوئی طلب
ہم نے اے دنیا رکھی ہے واجبی تیری طلب
کچھ سمجھ آتا نہیں دونوں ہیں کیسے ساتھ ساتھ
جسم کے اپنے تقاضے، روح کی اپنی طلب
ہو گئی معدوم فرصت، رابطے کمزور تر
جاگ اٹھی ہے نجانے شہر میں کیسی طلب
وہ بھی کیا دن تھے سکون زندگی دیکھا نہ تھا
دھوپ تھی صحرا تھا ہم تھے دور تک سایہ نہ تھا
یا بھری بستی میں کوئی اس کو پڑھ سکتا نہ تھا
یا جبینوں پر کوئی حرف شکن لکھا نہ تھا
غم کی تاریکی میں گم تھا میرا احساس نظر
دل میں تیری یاد کا سورج ابھی نکلا نہ تھا
رزق
چلو پھر ایسا کرتے ہیں، ذرا تفہیم کرتے ہیں
بنامِ عدلِ آدم، رزق ہم تقسیم کرتے ہیں
تو تم ساری حکومت، شان و شوکت، تمکنت لے لو
فضائے بحر و بر کے سب امورِ سلطنت لے لو
عدالت، حُسن و دولت، اختیارِ بے کراں لے لو
سپہ، دربار، شہرت، اقتدارِ دو جہاں لے لو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حضور کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہے
بڑی سرکار میں پہنچے مقدر یاوری پر ہے
نہ ہم آنے کے لائق تھے نہ قابل منہ دکھانے کے
مگر ان کا کرم ذرہ نواز و بندہ پرور ہے
خبر کیا ہے بھکاری کیا کیا نعمتیں پائیں
یہ اونچا گھر ہے اس کی بھیک اندازہ سے باہر ہے
ارتقاء
رات کے لاشے کو کندھوں پہ اٹھائے
تم یہاں کب سے کھڑے ہو
اور آگے
تیرگی کی روزن دیوار سے
روشنی کی کچھ لکیریں جھانکتی ہیں
اپنے کندھوں کا ہٹا کر بوجھ تم سے
کہاں جا رہا ہوں
زمیں پہلے ایسی کبھی بھی نہ تھی
پاؤں مٹی پہ ہوتے تھے
نظریں افق پر
ہمیں اپنے بارے میں معلوم ہوتا تھا
ہم کون ہیں
اور کیا کر رہے ہیں
ہوں دفن مر کے کوچۂ جاناں کے سامنے
بلبل کا آشیاں ہو گلستاں کے سامنے
شرمائے اشک خوں سے گل تر بہار میں
رنگ چمن اڑا مرے داماں کے سامنے
گر خط سبز لب پہ ترے خضر دیکھ پائے
پھر منہ کرے نہ چشمۂ حیواں کے سامنے
مجھ کو میری ذات کے زندان میں رکھا گیا
یعنی ہر لمحہ مجھے نقصان میں رکھا گیا
وقتِ رخصت موسمِ گل کی بھی یوں تکریم کی
پھُول جو ٹوٹے اُنہیں گُلدان میں رکھا گیا
جس کے آ جانے سے یہ اشعار زندہ ہوگئے
ایک ایسا لفظ بھی دیوان میں رکھا گیا
اس کاروبار زیست میں الجھا نہ تو نہ میں
اسرار بندگی کے تو سمجھا نہ تو نہ میں
یہ بار زندگی تو اٹھانا پڑا بہ جبر
پر اس کے غم میں رات کو سویا نہ تو نہ میں
بجتا رہا یہ ساز ملامت تو روز و شب
اس کے سروں پہ خیر سے ناچا نہ تو نہ میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یادِ مدینہ جب آ جائے، وہ بھی اِتنی رات گئے
دل کیا کیا تڑپے تڑپائے، وہ بھی اتنی رات گئے
نعتِ نبیؐ کے جھونکے آئے، وہ بھی اِتنی رات گئے
سانسوں کے سرگم لہرائے، وہ بھی اتنی رات گئے
رات کی اس ڈھلتی بیلا میں کس نے چھیڑا ذکرِ رسولؐ
کس نے آئینے دِکھلائے، وہ بھی اتنی رات گئے
دوست دشمن سبھی غمخوار نظر آتے ہیں
اب مری موت کے آثار نظر آتے ہیں
جانے کیوں جلوہ پس پردہ چلا جاتا ہے
ہم ہی جب طالب دیدار نظر آتے ہیں
لوگ رو رو کے دعا مانگتے ہیں جینے کی
اور ہم جینے سے بیزار نظر آتے ہیں
بہت ویران موسم ہے، کبھی مِلنے چلے آؤ
سبھی جانب تِرا غم ہے، کبھی ملنے چلے آؤ
مِرے ہمراہ گرچہ دور تک لوگوں کی رونق ہے
مگر جیسے کوئی کم ہے، کبھی ملنے چلے آؤ
تمہیں تو علم ہے میرے دلِ وحشی کے زخموں کو
تمہارا وصل مرہم ہے، کبھی ملنے چلے آؤ
وصالِ مرگ ہُوا یا وصالِ یار ہُوا
غرض طوالتِ فرقت کا اختصار ہوا
ہوا امتحاں ذرا اے نگاہِ صبر شکن
کسے قرار ہوا؟ کون بے قرار ہوا؟
خیالِ عارضِ گلگوں میں گل کھٹکتے ہیں
نگاہِ یاس میں گلزار، خارزار ہوا
گناہوں کا مجھے احساس بھی ہے
مگر تیرے کرم کی آس بھی ہے
وفا کے طالبو!! یہ تو بتاؤ؟
وفا کی دہر میں بُو باس بھی ہے
لہو روتے ہیں پھر بھی جی رہے ہیں
فضائے زندگی یوں راس بھی ہے
غافل ہوں تِری یاد سے ایسا تو نہیں ہے
ہر وقت مِرے دل میں تِری یاد مکیں ہے
دنیائے محبت بڑی دل کش ہے حسیں ہے
ہر ایک کو راس آئے ضروری تو نہیں ہے
مانا کہ زمانے کا ہر اک نقش حسیں ہے
اس پر بھی زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں غلامِ عجمی آپﷺ ہیں سلطانِ عرب
مجھ کو مل جائے کوئی غنچۂ بستانِ عرب
حجرۂ کن میں اندھیرے کا کہیں نام نہیں
روشنی دیتے ہیں کچھ ایسی چراغانِ عرب
باغِ فردوس ہوئے گوش بر آواز اس دم
چھڑ گیا جب بھی کہیں ذکرِ بیابانِ عرب
وہ غم جو حاصل ہستی ہے مل چکا کہ نہیں
پھر اور کون سا ہے لطف دلکشا کہ نہیں
مزاج درد تمنا بدل گیا کہ نہیں
وفا نے رنج کو راحت بنا لیا کہ نہیں
جو دل میں توڑتی رہتی تھی نیشتر ہر دم
ہوئی وہ کاوش جاں کا وہ جاں فزا کہ نہیں
نہ یاد رہتی ہے چاہت نہ من کی تنہائی
جب آدمی کو جلا دے بدن کی تنہائی
جو حرف لکھے سمجھ میں کسی کی کیا آئیں
اکیلا چھوڑ گئی ہے سخن کی تنہائی
پھر اس طرح ہوا اپنے ہی تن کو پھاڑ دیا
اداس کرتی تھی مجھ کو چبھن کی تنہائی
کہتا ہے ذرہ ذرہ جہانِ خراب کا
سیماب میں ہے رنگ مِرے اضطراب کا
حشر آفریں ہے رنگ کسی کے شباب کا
شیرازہ منتشر ہے جہانِ خراب کا
کوئی قصور اس میں نہیں ہے نقاب کا
ہر پردہ، پردہ در ہے کسی کے حجاب ہوا
زمانے بھر میں بہت معتبر اُجالا ہے
یہ دیکھنا ہے مگر کس کے گھر اجالا ہے
ہُوا نہ سامنا دونوں کا اتفاقاً بھی
اندھیرا ہے بھی کہیں بے خبر اجالا ہے
مِری اس ادنیٰ سی جُرأت کی کوئی داد تو دے
گو پھونک کر ہی سہی گھر مگر اجالا ہے
سرد تنہائی میں یوں جسم کو گرماؤ گے
خود سے لپٹو گے کبھی خود میں سمٹ جاؤ گے
ایسی تنہائی کہ خود سے تمہیں خوف آئے گا
کوئی خاموش سی آہٹ بھی نہ سن پاؤ گے
جسم اپنا تمہیں آسیب لگے گا اک دن
اپنے سائے کو بھی تم خود سے جدا پاؤ گے
یارکی یاری کے غم سہنے کی عادت ہو گئی
تو سبھی لوگوں کو ہم سے ہی شکایت ہو گئی
جب ہوئی تحقیق تو آثار سارے مل گئے
چھوڑ کر مجھ کو کیوں اس سے حماقت ہو گئی
جو جھگڑتا تھا محبت کو نبھانے کے لیے
پھر اسے کیسے کسی سے یوں رفاقت ہو گئی
باہر کتنی سرد ہوا ہے، کھڑکی کھول کے دیکھ
آوازوں پر برف جمی ہے، بے شک بول کے دیکھ
جیون کے برتن میں کم ہو سکتی ہے کڑواہٹ
اس میں اپنے لہجے کی شیرینی گھول کے دیکھ
اندھی دنیا کے کہنے پر یوں بے وزن نہ ہو
اپنی نظروں میں بھی خود کو پورا تول کے دیکھ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
روز و شب جوش پہ رحمت کا ہے دریا تیرا
صدقے اس شانِ سخاوت پہ یہ منگتا تیرا
ہاتھ اٹھے بھی نہ تھے اور مِل گیا صدقہ تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہہ بطحاﷺ تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگے والا تیرا
وہ حقیقت تِری جبریل جسے نہ جانیں
وہ یاد آئے مگر اس قدر نہ آیا کرے
کہ میری جان لبوں تک نہ کھینچ لایا کرے
نہ دے ثبوت نہ دعویٰ کرے، مگر مجھ کو
سزا سے پہلے وہ الزام تو بتایا کرے
نہیں ہے دوست کے کپڑوں میں وہ اگر دشمن
مِرا مذاق مِرے سامنے اڑایا کرے
غمِ حیات سے کس کو نجات ملتی ہے
سنا ہے مر کے بھی تازہ حیات ملتی ہے
عجیب رنگ دکھائے ہیں تُو نے حُسنِ ازل
کہ ہر زباں پہ رواں تیری بات ملتی ہے
سیاہ دونوں ہیں دونوں کے ایک سے ہیں مزاج
تمہاری زُلف سے فُرقت کی رات ملتی ہے
نسبت زمیں سے ہے نہ مجھے آسماں سے ہے
کچھ واسطہ جو ہے تو تِرے آستاں سے ہے
گردِ ملال بھی مِرے تن پر نہیں رہی
مجھ کو اگر گِلہ ہے تو بس کارواں سے ہے
پھیلے ہوئے جہان میں تُو ہے تو میں بھی ہوں
کیا تیرے اس یقین کا رشتہ گُماں سے ہے
ذہن کو مفلوج مت کر سوچ سے عاری نہ کر
تُو مِرا غم خوار ہے تو میری غم خواری نہ کر
یوں مسیحائی کو جِدت کا کوئی انداز دے
مجھ پہ میری زندگی کا خوف تو طاری نہ کر
پھر دکھا کر خواب وحشت ناک لمحوں کے مجھے
منجمد جو خوں رگوں میں ہے اسے جاری نہ کر
کج فہم سے کیا دل کی حکایات کہیں ہم
بہتر ہے جو سمجھیں سو وہی بن کے رہیں ہم
ہو رو میں تِری چشم بلا خیز کا دریا
اس نور کے سیلاب میں اک بار بہیں ہم
جو کیف تِرے قرب میں ہے اور کہاں ہے
دیکھ آئے ہیں ویسے تو بہت عیش گہیں ہم
مجھے تو اب بھی کئی رنجشوں کا خطرہ ہے
وہ میرے پاس ہے لیکن خفا سا رہتا ہے
اس ایک جرم کی کب تک سزا میں کاٹوں گا
یہی کہا تھا کہ؛ موسم کا حال کیسا ہے
یہ ٹھیک ہے کہ میں سورج ہی مانتا ہوں تمہیں
مگر یہ کیا کہ بہت دور تک اندھیرا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رہے گی ناخنِ فرقت کی کب تک سینہ افگاری
کرے گی یاس تا کے زخم پر دل کے نمک باری
بہیں گے دل کے ٹکڑے بن کے آنسو آنکھ سے کب تک
رہیں گے چشمِ پُر ارماں سے کب تک اشکِ غم جاری
نہ کچھ حُسنِ عمل ہی ہے نہ کوئی مادی ساماں
جو کچھ ساماں ہے تو چھوٹی سی تھوڑی گریہ و زاری
اپنے اندازِ کرم کو بھی تو دیکھا ہوتا
لے گیا کھینچ کے ہم کو جو خطا کی جانب
لوگ تو جھُکتے ہیں کعبہ میں، صنم خانے میں
ہم جھُکے آپ کے نقشِ کفِ پا کی جانب
موت پھیلائے پر و بال وہاں بھی آئی
زندگی ڈھونڈنے نکلے تھے خلا کی جانب
زعفرانی کلام
دال کھائی ہے دوستوں نے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے جبھی
اب تو گوبھی کو بھی ترستے ہیں
روز کھاتے تھے مچھلیاں جو کبھی
فیڈ مہنگی ہوئی ہے مرغی کی
آٹھ سو کی وہ ہو گئی ہے تبھی
رونگ نمبر
قریباً دو بجے کل شب
کسی یو فون کے نمبر سے
اک مِس کال آتی ہے
تو پھر جب میں اُسی نمبر پہ واپس
کال کر کے پوچھتا ہوں؛ کون؟
مجھ کو سسکیاں لیتی ہوئی
منہ میں اپنے زبان چاہتے ہیں
وہ بنارس کا پان چاہتے ہیں
جان جن پر نثار کی ہم نے
وہ ہماری ہی جان چاہتے ہیں
وہ جنہوں نے زمین گِروی کی
اب وہ ہم سے لگان چاہتے ہیں
خلوصِ مدح و جلال و جمال سے بھی گئے
فقیہِ عصر تو کشف و کمال سے بھی گئے
حضورِ دل بڑے دعوے تھے لنترانی کے
جواب بن نہ پڑا اور سوال سے بھی گئے
تِرے خیال کا موسم، تِرے خیال کے دن
مگر گمان کہ تیرے خیال سے بھی گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مِرے ماں باپ قُرباں ہوں محمدﷺ پر الٰہی
فِدا اُمت کے انساں ہوں محمدﷺ پر الٰہی
تجھے ہے واسطہ تیری ہی عظمت کا خدایا
کہ رائج ہو عقیدہ انﷺ کی سُنت کا خدایا
ہم انﷺ کے ذکر سے توحید کی بُنیاد رکھیں
یہ انﷺ کا حکم ہے در پر تِرے فریاد رکھیں
نہ کھیل اب کھیل تُو میرے یقیں سے
خُدا کے واسطے آ جا کہیں سے
یہ اچھی آگ اشکوں نے بُجھائی
دُھواں اُٹھنے لگا اب ہر کہیں سے
انہیں کو آسماں نے بھی ڈرایا
ڈرے سے تھے جو پہلے ہی زمیں سے
سفر تھا اور کہیں سایا نہیں تھا
مگر میں اس قدر بکھرا نہیں تھا
ملاقاتوں میں اندھے ہو گئے تھے
بچھڑنے کا کبھی سوچا نہیں تھا
خریداروں کو دشواری نہیں تھی
کہیں بھی آدمی مہنگا نہیں تھا