تِرا جلوہ جہاں ہو آشکارا
وہی کعبہ، وہی قبلہ ہمارا
رہا باقی نہ جب کوئی بھی یارا
اناالحق کہہ اٹھا الفت کا مارا
ذرا ہو جائے ساقی کا اشارا
ابھی جھوم اٹھے یہ میخانہ سارا
کہاں کا طور، کیسی لن ترانی
کسی خلوت نشیں کا تھا اشارا
تصور تھا کسی کا وجہِ تسکیں
شبِ غم وہ بھی کرتا تھا کنارا
پرستش آپ اپنی کر نہ بیٹھوں
گُماں ہونے لگا خود پر تمہارا
تصرف ہے جنابِ دل کے ثابت
تخیل ہو چلا اونچا تمہارا
ثابت خیرآبادی
No comments:
Post a Comment