Friday, 22 November 2024

بن ترے خود کو عبارت تو نہیں کر سکتا

 بِن تِرے خود کو عِبارت تو نہیں کر سکتا

تنہا تعمیر عِمارت تو نہیں کر سکتا

نُور انعام مِلا ہے مِری آنکھوں کو مگر

رہن میں اپنی بصارت تو نہیں کر سکتا

نا امیدی سے بھلا میرا تعلق کیسا؟

اپنی یہ عُمر اکارت تو نہیں کر سکتا

اک نیا رُوپ عطا کرتا رہا لفظوں کو

نئے لہجے کی جسارت تو نہیں کر سکتا

آئینہ میرے خد و خال ہی دِکھلائے گا

آئینہ میری حفاظت تو نہیں کر سکتا

بُجھ گیا چاند تو جگنو ہی سلامت رکھا

طے اندھیرے میں مسافت تو نہیں کر سکتا


سلطان صبروانی

No comments:

Post a Comment