کس نے پہنی ہوئی ہیں زنجیریں
کتنی سہمی ہوئی ہیں زنجیریں
آج تُو اپنا شوق پورا کر
ہم نے دیکھی ہوئی ہیں زنجیریں
کل جنوں رقص کر رہا تھا یہاں
گھر میں بکھری ہوئی ہیں زنجیریں
عدل ہوتا ہوا دکھانے کو
دیکھ لٹکی ہوئی ہیں زنجیریں
چند سوچوں کو قید کرنے پر
خود سے الجھی ہوئی ہیں زنجیریں
کل سے مرشد ہے حبس بے جا میں
اس سے لپٹی ہوئی ہیں زنجیریں
مرشد سعید ناصر
No comments:
Post a Comment