Tuesday, 26 November 2024

روح کی تسکین چاہی رفعتوں کی چاہ کی

 روح کی تسکین چاہی رفعتوں کی چاہ کی

تجھ سے جو کر دے قریب ان زاویوں کی چاہ کی

ہر کوئی محتاجِِ توفیقِ محبت ہے یہاں

تُو نے جب چاہا تو ہم نے نیکیوں کی چاہ کی

سیدھ میں چلتے رہے اور تیرے در تک آ گئے

کم نظر کی کج روی نے راستوں کی چاہ کی

داستانِ طُورِ سِینا کے امیں ہیں یہ پہاڑ

ہم نے چاہی اک نظر سرگوشیوں کی چاہ کی

کس قدر خاموشی سے دریا فلک پر ہیں رواں

پیاس کے مارے ہوؤں نے بادلوں کی چاہ کی

کس نے بخشا ہے بشر کو ذوقِ فطرت دوستی

ہم نے دریاؤں کو سوچا جنگلوں کی چاہ کی

ہم سمندر سے محبت کرنے والے لوگ ہیں

غرقِ نظارہ ہوئے ہیں ساحلوں کی چاہ کی

اک فقط تُو ہی رحمان، اک فقط تُو ہی رحیم

بات حمدی کر رہا ہے چاہتوں کی چاہ کی


یاسر فاروق

No comments:

Post a Comment