ایک تو پتھر اُچھالا جا رہا ہے
اس پہ شیشہ بھی سنبھالا جا رہا ہے
گھر اندھیروں کا کھنگالا جا رہا ہے
رات میں سُورج نکالا جا رہا ہے
پھُول تو مجبوریوں میں کِھل رہے ہیں
باغ میں کانٹوں کو پالا جا رہا ہے
آپ کی تب تک ہی زندہ باد ہو گی
پیٹ میں جب تک نِوالا جا رہا ہے
اب سُنا ایسے بھی سانچے بن رہے ہیں
جن میں کوزہ گر کو ڈھالا جا رہا ہے
اب کہاں کندھوں کو کچھ تکلیف ہو گی
بوجھ سارا دل پہ ڈالا جا رہا ہے
بند رہ کر وہ بھی اب اُکتا گیا ہے
چابیوں کے پاس تالا جا رہا ہے
چندرشیکھر ورما
No comments:
Post a Comment