غموں کی حکمرانی ہو گئی ہے
خدا کی مہربانی ہو گئی ہے
لگا دو مرقدِ غالب پہ کتبہ
غزل کافی پرانی ہو گئی ہے
تمہاری یاد کا شاید گزر ہو
فضا کچھ زعفرانی ہو گئی ہے
پرانے مقبروں کی زرد مٹی
بزرگوں کی نشانی ہو گئی ہے
لگائیں کب تلک پیوند سانسیں
یہ چادر اب پرانی ہو گئی ہے
یہ آنگن کتنے حصوں میں بٹے گا
رویت خاندانی ہو گئی ہے
مِری آنکھوں کے منظر بجھ چکے ہیں
مِری بیٹی سیانی ہو گئی ہے
ہنسی بھی اب مِرے ہونٹوں کی طارق
بلائے نا گہانی ہو گئی ہے
طارق شاہین
No comments:
Post a Comment