تمہارے طنز کا ہر ایک تیر زندہ ہے
کہ کھا کے زخم دل بے ضمیر زندہ ہے
مجھے خریدنے والا یہ کہہ کے لوٹ گیا
عجیب شخص ہے اب تک ضمیر زندہ ہے
سنائی دیتی ہے زنجیر کی صدا اکثر
ہماری ذات میں شاید اسیر زندہ ہے
ہمارا عہد ڈھلے گا ہمارے شعروں میں
ہماری سوچ کی جب تک لکیر زندہ ہے
اٹھا کے دیکھ لو کوئی غزل مِری آتش
ہر ایک فکر مِری بے نظیر زندہ ہے
آتش رضا
No comments:
Post a Comment