بہار تھی، نہ چمن تھا، نہ آشیانہ تھا
عجیب رنگ میں گزرا ہوا زمانہ تھا
بہ فیض خون جگر اب وہ ہو رہا ہے چمن
کبھی جو میرے مقدر سے قید خانہ تھا
حدود کون و مکاں میں بھی جو سما نہ سکا
مِری حیات کا وہ مختصر فسانہ تھا
نظر میں دیر و حرم تھے کہ میں سمجھ نہ سکا
جہاں جھکی تھی جبیں، ان کا آستانہ تھا
بس اتنا یاد ہے مجھ کو کہ برق چمکی تھی
پھر اس کے بعد چمن تھا، نہ آشیانہ تھا
فریبِ حُسن میں آئے تو یہ ہوا معلوم
جہاں میں ایک یہی زیست کا بہانہ تھا
جنونِ شوق کا اک یہ بھی معجزہ ہے نظیر
وہی ہے آج حقیقت، جو کل فسانہ تھا
سعادت نظیر
No comments:
Post a Comment