Thursday, 21 November 2024

مرے ارد گرد جو حصار تھا وہ نہیں رہا

 مِرے اِرد گِرد جو حِصار تھا، وہ نہیں رہا

مجھے خود پہ کچھ اعتبار تھا، وہ نہیں رہا

وہ جو دُھوپ تھی کسی خیال کی اسے کھو دیا

وہ جو خواب وقفِ بہار تھا، وہ نہیں رہا

نہ دریچہ وا، نہ ہی نامہ بر، نہ صدا کوئی

پسِ خوابِ جاں جو دیار تھا، وہ نہیں رہا

مِری آنکھ کو کوئی خواب دے کہ چمک اُٹھے

وہ جو دردِ دل بے شمار تھا، وہ نہیں رہا

مِری ساری عُمر کی جستجو بے ثمر گئی

تِری آنکھ میں جو خُمار تھا، وہ نہیں رہا


محمود ناصر ملک

No comments:

Post a Comment