محبت کا تجھے عرفان بھی ہے
محبت کُفر بھی ایمان بھی ہے
تضادِ حضرتِ انساں نہ پوچھو
فرشتہ بھی ہے یہ شیطان بھی ہے
یہی ثابت ہوا ہے زندگی سے
جو دانا ہے وہی نادان بھی ہے
اسی کا زندگی ہے نام شاید
کچھ الجھن بھی کچھ اطمینان بھی ہے
نہ کھا موجوں کی خاموشی سے دھوکا
اسی پردے میں اک طوفان بھی ہے
نکالیں کس طرح حسرت کو دل سے
مسافر بھی ہے یہ مہمان بھی ہے
خدا لگتی کبھی تو بات کہہ دے
ترا کچھ دین کچھ ایمان بھی ہے
نوازش سی نوازش ہو رہی ہے
کرم بھی آپ کا احسان بھی ہے
سخن میں آپ نازاں تو ہیں طالب
سخن میں کے کچھ جان بھی ہے
یہ ہندو،۔ یہ مسلامن،۔ یہ مسیحی
مگر ان میں کوئی انسان بھی ہے؟
طالب دہلوی
No comments:
Post a Comment