Thursday, 21 November 2024

کوئی دعا نہ کوئی چارہ گر سنبھالے گا

 کوئی دعا نہ کوئی چارہ گر سنبھالے گا

کہ اب یہ زخم ہی میرا جگر سنبھالے گا

وہ عکس جس سے نہیں کوئی آئینہ محفوظ

درونِ آب وہی چشمِ تر سنبھالے گا

جو برقرار بنوعِ دِگر ہے ٹوٹ کے بھی

وہ سلسلہ ہی ہمیں عمر بھر سنبھالے گا

وہ جس کی راہ میں گمراہ ہو گیا ہوں میں

 وہی خدا مِرا سمتِ سفر سنبھالے گا

خِرد بنامِ جنوں قد کی آزمائش میں

فرازِ دار و رسن میرا سر سنبھالے گا


عبدالسلام عاصم

No comments:

Post a Comment