یہ باغ مِرے سامنے ویران ہُوا ہے
ہر کام یہاں جھوٹ سے آسان ہوا ہے
کچھ اہل چمن ہی مِرے دکھ درد کو سمجھے
یہ باغ مِرے سامنے ویران ہوا ہے
جب سے صنم آیا ہے خدا اور مِرے بیچ
اس بندۂ ناچیز کا نقصان ہوا ہے
عالم یہ جنوں والوں کا یہ کشمکشِ دل
تقدیر سے پھر وصل کا امکان ہوا ہے
یہ کون ہے جو اس کے مقابل چلا آیا
موسم بھی تِرے حُسن پہ حیران ہوا ہے
افلاک نے خالق کا پتہ دے دیا ہم کو
اب جا کے کہیں دِید کا سامان ہوا ہے
یاسر فاروق
No comments:
Post a Comment