دشمنی چلتی رہی یاروں کے بیچ
پھول بھی کھلتے رہے خاروں کے بیچ
ہو اگر ایمان کامل آج بھی
رقص ہو سکتا ہے انگاروں کے بیچ
دوستی کی چھت بنانا چاہیے
ہم کو بھی رہنا ہے دیواروں کے بیچ
آپ کو تو چاند کہتے تھے سبھی
آپ کیوں دھندلا گئے تاروں کے بیچ
خود فریبی نے سہارا دے دیا
مل گیا اقرار انکاروں کے بیچ
خوب ہے مضطر کا رنگ شاعری
خوں کی سرخی ہے غزل پاروں کے بیچ
مقیم الدین مضطر اعظمی
No comments:
Post a Comment