Thursday, 21 November 2024

دشمنی چلتی رہی یاروں کے بیچ

 دشمنی چلتی رہی یاروں کے بیچ

پھول بھی کھلتے رہے خاروں کے بیچ

ہو اگر ایمان کامل آج بھی

رقص ہو سکتا ہے انگاروں کے بیچ

دوستی کی چھت بنانا چاہیے

ہم کو بھی رہنا ہے دیواروں کے بیچ

آپ کو تو چاند کہتے تھے سبھی

آپ کیوں دھندلا گئے تاروں کے بیچ

خود فریبی نے سہارا دے دیا

مل گیا اقرار انکاروں کے بیچ

خوب ہے مضطر کا رنگ شاعری

خوں کی سرخی ہے غزل پاروں کے بیچ


مقیم الدین مضطر اعظمی

No comments:

Post a Comment