یار کے بھیس میں محبوب ستم گر نکلا
پھول ہم جس کو سمجھتے تھے وہ پتھر نکلا
ایک روٹی کے عوض دے گیا جنت کی دعا
میرے کوچے کا بھکاری بھی مخیر نکلا
آج کل آنکھ کا دیکھا بھی غلط ہوتا ہے
جس کو سمجھے تھے اپاہج وہ تونگر نکلا
وقت کمزور کو شہ زور بنا دیتا ہے
شام کو ڈوبا مگر صبح میں خاور نکلا
گھر بدلنے سے بھی تقدیر بدل جاتی ہے
سیپ میں پانی پڑا بن کے وہ گوہر نکلا
جو مرے ذہن و تخیل میں بہت اونچا تھا
اس کا قد طالب دنیا کے برابر نکلا
جس کے ذمے تھی مِرے گھر کی حفاطت مضطر
دشمنوں کا مِرے وہ شخص بھی ہمسر نکلا
مقیم الدین مضطر اعظمی
No comments:
Post a Comment