Friday, 22 November 2024

یار کے بھیس میں محبوب ستم گر نکلا

 یار کے بھیس میں محبوب ستم گر نکلا

پھول ہم جس کو سمجھتے تھے وہ پتھر نکلا

ایک روٹی کے عوض دے گیا جنت کی دعا

میرے کوچے کا بھکاری بھی مخیر نکلا

آج کل آنکھ کا دیکھا بھی غلط ہوتا ہے

جس کو سمجھے تھے اپاہج وہ تونگر نکلا

وقت کمزور کو شہ زور بنا دیتا ہے

شام کو ڈوبا مگر صبح میں خاور نکلا

گھر بدلنے سے بھی تقدیر بدل جاتی ہے

سیپ میں پانی پڑا بن کے وہ گوہر نکلا

جو مرے ذہن و تخیل میں بہت اونچا تھا

اس کا قد طالب دنیا کے برابر نکلا

جس کے ذمے تھی مِرے گھر کی حفاطت مضطر

دشمنوں کا مِرے وہ شخص بھی ہمسر نکلا


مقیم الدین مضطر اعظمی

No comments:

Post a Comment