غمِ وفا کو پس پشت ڈالنا ہو گا
کھٹک رہا ہے جو کانٹا نکالنا ہو گا
فقیرِ عشق ہوں کچھ دے کے ٹالنا ہو گا
بس اک نگاہ کا سِکہ اچھالنا ہو گا
سوال دوستو! عظمت کا ہے سروں کا نہیں
ہمیں وقار کا پرچم سنبھالنا ہو گا
غضب کی پیاس لگی، سامنا سراب کا ہے
سو ریگِ صحرا سے پانی نکالنا ہو گا
اسے بتاؤ کہ فاقہ ہے آج اپنا بھی
مگر فقیر کو عزت سے ٹالنا ہو گا
یہ انتظار سلامت رہے، وہ آئے گا
مگر ہے شرط کہ دل کو سنبھالنا ہو گا
تمہارے دل کی زمیں جل چکی مگر اعجاز
اسی سے نخلِ محبت نکالنا ہو گا
اعجاز اسد
No comments:
Post a Comment