Wednesday, 27 November 2024

راکھ ہی راکھ ہے اس ڈھیر میں کیا رکھا ہے

 آنکھیں انگلیاں اور دل


راکھ ہی راکھ ہے اس ڈھیر میں کیا رکھا ہے

کھوکھلی آنکھیں جہاں بہتا رہا آب حیات

کب سے اک غار کی مانند پڑی ہیں ویراں

قبر میں سانپ کا بل جھانک رہا ہو جیسے

راکھ ہی راکھ ہے

انگلیاں صدیوں کو لمحوں میں بدلنے والی

انگلیاں شعر تھیں نغمہ تھیں ترنم تھیں کبھی

انگلیاں جن میں ترے لمس کا جادو تھا کبھی

اب تو بس سوکھی ہوئی ناگ پھنی ہوں جیسے

راکھ ہی راکھ ہے

دل کہ تھا ناچتی گاتی ہوئی پریوں کا جہاں

ان گنت یادوں کا ارمانوں کا اک شیش محل

تیری تصویر دریچوں پہ کھڑی ہنستی تھی

اب تو پگھلے ہوئے لاوے کے سوا کچھ بھی نہیں

راکھ کے جلتے ہوئے ڈھیر میں کیا پاؤ گے

شہر سے دور ہے شمشان، کہاں جاؤ گے


کیلاش ماہر

No comments:

Post a Comment