آنکھیں انگلیاں اور دل
راکھ ہی راکھ ہے اس ڈھیر میں کیا رکھا ہے
کھوکھلی آنکھیں جہاں بہتا رہا آب حیات
کب سے اک غار کی مانند پڑی ہیں ویراں
قبر میں سانپ کا بل جھانک رہا ہو جیسے
راکھ ہی راکھ ہے
انگلیاں صدیوں کو لمحوں میں بدلنے والی
انگلیاں شعر تھیں نغمہ تھیں ترنم تھیں کبھی
انگلیاں جن میں ترے لمس کا جادو تھا کبھی
اب تو بس سوکھی ہوئی ناگ پھنی ہوں جیسے
راکھ ہی راکھ ہے
دل کہ تھا ناچتی گاتی ہوئی پریوں کا جہاں
ان گنت یادوں کا ارمانوں کا اک شیش محل
تیری تصویر دریچوں پہ کھڑی ہنستی تھی
اب تو پگھلے ہوئے لاوے کے سوا کچھ بھی نہیں
راکھ کے جلتے ہوئے ڈھیر میں کیا پاؤ گے
شہر سے دور ہے شمشان، کہاں جاؤ گے
کیلاش ماہر
No comments:
Post a Comment