ہر گھڑی شہر خموشاں کا سماں رہتا ہے
دل کی بستی میں شب و روز دھواں رہتا ہے
میری بدلی ہوئی حالت کا بھی مفہوم سمجھ
ان دنوں مجھ سے خفا دشمنِ جاں رہتا ہے
آئینہ توڑ کے کیوں جوڑ رہے ہیں صاحب
زخم بھر جاتا ہے پر اس کا نشاں رہتا ہے
میرے ویرانے کی افسردہ فضاؤں پہ نہ جا
اس خرابے میں بھی اک شعلہ بجاں رہتا ہے
سرد ہوتا ہی نہیں موسمِ یخ بستہ میں
میری شریانوں میں جو رقص کناں رہتا ہے
جانے وہ کون سی خوبی کا ہے مالک پیکر
ساری دنیا چلی آتی ہے جہاں رہتا ہے
نور پیکر
No comments:
Post a Comment