خود پہ الزام دھر گیا ہوں میں
کام مشکل تھا کر گیا ہوں میں
کیسی دہشت سے بھر گیا ہوں میں
خواب میں جیسے ڈر گیا ہوں میں
جانے کس شے کی ہے تلاش مجھے
کو بہ کو در بدر گیا ہوں میں
مجھ کو اب کیسے پا سکے گا کوئی
وقت تھا اور گزر گیا ہوں میں
میرے چاروں طرف اندھیرا ہے
کیا بتاؤں کدھر گیا ہوں میں؟
کل بھی کچھ درد کم نہ تھا لیکن
آج تو جیسے مر گیا ہوں میں
اب زمیں پر نہ جانے کیا ہو گا
آسماں سے اتر گیا ہوں میں
بے خبر ہی جہاں میں آیا تھا
اور یوں ہی بے خبر گیا ہوں میں
بعد مدت کے خود کو یاد آیا
بعد مدت کے گھر گیا ہوں میں
گرچہ محدود تھا، مگر شارق
شش جہت میں بکھر گیا ہوں میں
شارق جمال
No comments:
Post a Comment