Thursday, 21 November 2024

خود پہ الزام دھر گیا ہوں میں

 خود پہ الزام دھر گیا ہوں میں

کام مشکل تھا کر گیا ہوں میں

کیسی دہشت سے بھر گیا ہوں میں

خواب میں جیسے ڈر گیا ہوں میں

جانے کس شے کی ہے تلاش مجھے

کو بہ کو در بدر گیا ہوں میں

مجھ کو اب کیسے پا سکے گا کوئی

وقت تھا اور گزر گیا ہوں میں

میرے چاروں طرف اندھیرا ہے

کیا بتاؤں کدھر گیا ہوں میں؟

کل بھی کچھ درد کم نہ تھا لیکن

آج تو جیسے مر گیا ہوں میں

اب زمیں پر نہ جانے کیا ہو گا

آسماں سے اتر گیا ہوں میں

بے خبر ہی جہاں میں آیا تھا

اور یوں ہی بے خبر گیا ہوں میں

بعد مدت کے خود کو یاد آیا

بعد مدت کے گھر گیا ہوں میں

گرچہ محدود تھا، مگر شارق

شش جہت میں بکھر گیا ہوں میں


شارق جمال 

No comments:

Post a Comment