خزاں کے زخم ہوا کی مہک سے بھرنے لگے
نگار گل کے خد و خال پھر نکھرنے لگے
یہ سوکھے سہمے شجر دیکھ مارچ آنے پر
تیرے بدن کی طرح شاخ شاخ بھرنے لگے
غم حیات پھر آنے لگی صدائے جرس
دیار شب سے ترے قافلے گزرنے لگے
اداس رات کے دروازے وا ہیں جیسے ابھی
در نگاہ سے دل میں کوئی اترنے لگے
سراب دشت تمنا سے کون گزرا ہے
کہ چشمۂ غم دل بوند بوند جھرنے لگے
یہ جھلملاتے ستارے یہ زخم سینۂ شب
افق کے پہلے اجالے سے جیسے بھرنے لگے
نجوم شب کی زباں پر ہے گفتۂ اقبال
وہ پھر سے آدم خاکی کی بات کرنے لگے
زمیں سے دور بھی اب نقش پائے انساں سے
کئی جہان خلا میں نئے ابھرنے لگے
وہ ابر راہگزر کی تہوں میں ڈوبا چاند
ہوا چلے تو ابھی تیر کر ابھرنے لگے
ہے اس کے عکس کی تجسیم میرے فن سے ورا
وہ آئینہ کہ صدا کی طرح بکھرنے لگے
وہ ابر ہو کہ دھنک ہو کوئی تو ہو خاور
فضا کے شانے پہ جو زلف سا سنورنے لگے
رفیق خاور جسکانی
No comments:
Post a Comment