برسوں تپش غم میں یہ احساس جلے ہے
تب جا کے کہیں شعر کے سانچے میں ڈھلے ہے
کچھ ایسے تیری بزم میں بیٹھا ہوں اکیلا
جس طرح سرِ راہ کوئی شمع جلے ہے
اللہ کسی شخص کو رسوا نہ کرے یوں
مجھ سے مِرا سایہ بھی تو اب بچ کے چلے ہے
اس منزل دشوار سے ہنس ہنس کے گزر جا
پگلے کہیں رونے سے شب ہجر ڈھلے ہے
ہر روز نیا روپ بدلتی ہے تیری یاد
آہوں میں ڈھلے ہے کبھی اشکوں میں ڈھلے ہے
ہر شہر میں ہونے لگی انگشت نمائی
رُسوائی مِری مجھ سے بھی کچھ آگے چلے ہے
اک روز اسے ٹوٹ ہی جانا تھا بہرحال
دل توڑ کے تو کیوں کف افسوس ملے ہے
عشرت کرتپوری
No comments:
Post a Comment