Monday, 25 November 2024

زہر سے زہر کٹے کانٹے سے کرچی نکلے

 زہر سے زہر کٹے کانٹے سے کرچی نکلے

دے نیا درد کہ یہ ٹیس پرانی نکلے

زندگی یوں تو نیا لفظ نہیں ہے، لیکن

وقت کے ساتھ نئے اس کے معانی نکلے

کیوں کوئی کوکھ جو سُونی ہو وہ شرمندہ ہو

کیا ضروری ہے کہ ہر سیپ سے موتی نکلے

عشق کی جھیل میں اترو تو سنبھل کر اترو

عین ممکن ہے یہ امید سے گہری نکلے

ایک وہ شخص جسے دل نے خدا جانا ہو

سوچیے کیا ہو اگر وہ بھی فریبی نکلے

چھٹپٹاتے ہیں اداسی سے نکلنے کو مگر

قید صیاد سے کیسے کوئی پنچھی نکلے

وہ طریقہ مجھے مرنے کا بتاؤ جس سے

خود کشی بھی نہ لگے، جان بھی جلدی نکلے


وبھا جین خواب

No comments:

Post a Comment