زہر سے زہر کٹے کانٹے سے کرچی نکلے
دے نیا درد کہ یہ ٹیس پرانی نکلے
زندگی یوں تو نیا لفظ نہیں ہے، لیکن
وقت کے ساتھ نئے اس کے معانی نکلے
کیوں کوئی کوکھ جو سُونی ہو وہ شرمندہ ہو
کیا ضروری ہے کہ ہر سیپ سے موتی نکلے
عشق کی جھیل میں اترو تو سنبھل کر اترو
عین ممکن ہے یہ امید سے گہری نکلے
ایک وہ شخص جسے دل نے خدا جانا ہو
سوچیے کیا ہو اگر وہ بھی فریبی نکلے
چھٹپٹاتے ہیں اداسی سے نکلنے کو مگر
قید صیاد سے کیسے کوئی پنچھی نکلے
وہ طریقہ مجھے مرنے کا بتاؤ جس سے
خود کشی بھی نہ لگے، جان بھی جلدی نکلے
وبھا جین خواب
No comments:
Post a Comment