جس کو ہو خود تلاش کسی سائبان کی
دیوار کیا بنے گا وہ گرتے مکان کی
مٹی پڑی ہوئی ہے تعصب کی آنکھ میں
وہ قدر کیا کرے گا ہماری اڑان کی
دیکھیں گے کس کے دل میں گلستاں کا درد ہے
ہم چاہتے ہیں آئے گھڑی امتحان کی
اس کی نگاہ دولت دنیا پہ رک گئی
جس کو فقط ہے فکر اسی اک جہان کی
وہ لوگ بھی یہیں پہ زمیں بوس ہو گئے
جن کی حویلیاں تھیں بڑی آن بان کی
جن کی عنایتوں سے گلستاں اجڑ گیا
ان پر نہیں نگاہ مِرے پاسبان کی
مضطر انہیں کو ملتی ہیں منزل کی نعمتیں
کرتے نہیں جو بات سفر میں تھکان کی
مقیم الدین مضطر اعظمی
No comments:
Post a Comment