Sunday, 24 November 2024

جس کو ہو خود تلاش کسی سائبان کی

 جس کو ہو خود تلاش کسی سائبان کی

دیوار کیا بنے گا وہ گرتے مکان کی

مٹی پڑی ہوئی ہے تعصب کی آنکھ میں

وہ قدر کیا کرے گا ہماری اڑان کی

دیکھیں گے کس کے دل میں گلستاں کا درد ہے

ہم چاہتے ہیں آئے گھڑی امتحان کی

اس کی نگاہ دولت دنیا پہ رک گئی

جس کو فقط ہے فکر اسی اک جہان کی

وہ لوگ بھی یہیں پہ زمیں بوس ہو گئے

جن کی حویلیاں تھیں بڑی آن بان کی

جن کی عنایتوں سے گلستاں اجڑ گیا

ان پر نہیں نگاہ مِرے پاسبان کی

مضطر انہیں کو ملتی ہیں منزل کی نعمتیں

کرتے نہیں جو بات سفر میں تھکان کی


مقیم الدین مضطر اعظمی

No comments:

Post a Comment