یہ کیا وسوسے ہمسفر ہو گئے ہیں
سبھی راستے پُر خطر ہو گئے ہیں
پُکارا نہیں تم کو غیرت نے ورنہ
کئی بار آ کر ادھر ہو گئے ہیں
نہ سمجھو ہمیں کچھ شکایت نہیں ہے
کہ خاموش کچھ سوچ کر ہو گئے ہیں
کسے ہو خبر دردِ پنہاں کی اے دل
جنہیں تھی خبر بے خبر ہو گئے ہیں
ہم اپنی تباہی پر بس مُسکرائے
مگر دامنِ غیر تر ہو گئے ہیں
تِرے بن ہمیں موت بھی تو نہ آئی
جُدائی کے دن بھی بسر ہو گئے ہیں
مشتاق نقوی
No comments:
Post a Comment