دل غموں سے چھدا بانسری کی طرح
آدمی اب نہیں آدمی کی طرح
ہم نے چاہا نہیں تھا مگر یوں ہوا
دشمنی نبھ گئی دوستی کی طرح
روپ، رس، گندھ کی بات کیا کیجیے
زندگی ہی نہیں، زندگی کی طرح
جو بھی پیدا ہوا ہے مرے گا یہاں
موت بھی تو ملی سانس ہی کی طرح
آنکھ چھلکی مگر ہونٹ ہنستے رہے
غم کو جیتے رہے بندگی کی طرح
جگمگاتی رہی زندگی کی ڈگر
پیار دل میں رہا روشنی کی طرح
ہم تو ہنس کر یہاں ہر کسی سے ملے
لوگ ہم سے ملے اجنبی کی طرح
مدھوریما سنگھ
No comments:
Post a Comment