Friday, 29 November 2024

وحشت کو ثنا چھپائے رکھنا

 وحشت کو ثنا چھپائے رکھنا

دستار و قبا سجائے رکھنا

دیوانے ہی تیرے جانتے ہیں

صحراؤں کو بھی بسائے رکھنا

آنکھوں کے ستارے، رُوپ کا چاند

یہ سارے دِیے جلائے رکھنا

سانسوں کی مہک، بدن کی خُوشبو

ہونٹوں کے کنول کھلائے رکھنا

پلکوں کی یہ چھاؤں، رُوپ کی دُھوپ

ماتھے کی سحر جگائے رکھنا

کچھ گرم ہوائیں چل رہی ہیں

زُلفوں کی گھٹا چُھپائے رکھنا

اُلجھا ہوں ابھی غمِ جاناں میں

باتوں میں اسے لگائے رکھنا


ثنا گورکھپوری

No comments:

Post a Comment